اس عبارت: ”خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا“ کا شرعی حکم
اس شرط کے ساتھ سودا بیچنا کہ یہ نہ واپس ہوگا نہ تبدیل، جائز نہیں، کیونکہ یہ شرط صحیح نہیں، اس میں نقصان اور حقیقت چھپانے کا اندیشہ ہے۔ فروخت کرنے والا یہ شرط لگا کر گویا خریدار پر یہ سامان خریدنا لازم کر دیتا ہے چاہے اس میں کوئی عیب ہی ہو۔ اس کا یہ شرط لگانا سامان میں موجود عیب سے اس کو بری نہیں کر سکتا، کیونکہ اگر اس عیب دار سامان میں کوئی عیب ہو تو یہ فروخت کرنے والے کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کو صحیح سامان کے ساتھ تبدیل کر دے، یا خریدار کو اس عیب کا ہرجانہ یعنی زر نقصان دے، کیونکہ مکمل قیمت صحیح سامان کے بدلے میں وصول کی جاتی ہے۔ فروخت کرنے والا سامان میں عیب کے ہوتے ہوئے نا جائز قیمت وصول کرتا ہے، نیز شریعت عرفی شرط کو لفظی شرط کے قائم مقام قرار دیتی ہے اور عرفا سامان کا عیب سے پاک ہونا شرط تسلیم کیا جاتا ہے، جس کی بنا پر اگر عیب نکل آئے تو واپس کرنے کا جواز پیدا ہو جاتا ہے، اس طرح عرف کے اعتبار سے سامان کے عیب سے پاک ہونے کی شرط لفظا شرط کے قائم مقام قرار دی گئی ہے۔ [اللجنة الدائمة: 13788]