اس شرط کا حکم کہ تاجر یا خریدار یہ شرط لگائے کہ اگر خریدار کو نقصان ہوا تو تاجر خسارے کا عوضانہ ادا کرے گا
جب خریدار یہ شرط لگائے کہ خسارے کا بوجھ اس پر ہیں، یا جب سودا ہو تو یہ شرط عائد کرے کہ جو سامان بک جائے گا اس کے وہ (خریدار) پیسے دے گا اور جو بچ جائے گا اسے واپس کر دے گا یا فروخت کرنے والا یہ شرط لگائے کہ مجھ سے یہ سامان خرید لو اگر تجھے خسارا پہنچا تو میں خسارے کا عوض ادا کر دوں گا۔
یہ اکیلی شرط باطل ہے جبکہ بیع (سودا) درست ہے، کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«كل شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرطه» [سنن النسائي، رقم الحديث 3451]
”ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں، باطل ہے، چاہے وہ سو شرطیں ہی ہوں۔“
نیز اس معاہدے کا یہ تقاضا ہے کہ سامان قیمت ادا کرنے کے بعد خریدنے والے کی طرف منتقل ہو جائے، وہ اس میں آزادانہ تصرف کر سکتا ہے۔ اس کے منافع یا خسارے کا وہ اکیلا ہی مالک ہو۔ مزید برآں اس متوقع ضرر کا دفعیہ کرنا بھی ضروری ہے کہ خریدار اگر اس سامان کی ترویج میں سستی دکھاتے ہوئے اسے خسارے کے ساتھ فروخت کر دے تو وہ خسارہ فروخت کرنے والے کے کھاتے میں پڑ جاتا ہے کیونکہ فروخت کنندہ کا یہ کہنا: ”اگر سامان میں خسارہ ہوا تو میں خسارہ پورا کر دوں گا“ ایک طرح کی دھوکا دہی ہے جس میں خریدار کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ یہ سودا بکنے والا ہے، اس کی مانگ ہے اور یہ اس قیمت کے برابر ہے۔ [اللجنة الدائمة: 19637]