خدا کی موجودگی ایک بدیہی اور فطری حقیقت

تمہید

خدا کا تصور ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جو انسانی فطرت، وجدان، اور ثقافتی تنوع کے باوجود تمام معاشروں میں موجود رہا ہے۔ یہ مضمون اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ خدا کے وجود کو کس طرح انسانی فطرت، تاریخ، نفسیات، اور معاشرتی شواہد کی روشنی میں ایک واضح اور غیر متنازعہ حقیقت کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

بدیہی حقائق کی اہمیت

بدیہی حقائق کیا ہیں؟

بدیہی حقائق وہ ہیں جو انسانی شعور میں بغیر کسی خارجی تعلیم یا دلیل کے پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ان کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:

◄ آفاقی (Universal): یہ کسی ایک تہذیب یا نسل تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں میں مشترک ہیں۔

◄ جبلی (Untaught): ان کا شعور یا فہم کسی تعلیم یا ہدایت کا محتاج نہیں۔

◄ فطری (Natural): یہ انسانی نفسیات کے قدرتی ارتقاء کا حصہ ہیں۔

◄ وجدانی (Intuitive): ان کا شعور سادہ اور غیر پیچیدہ ہوتا ہے، جو انسان کی عمومی فہم سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔

ماضی اور خدا کی حقیقت کا موازنہ

جس طرح ماضی کا وجود ایک بدیہی حقیقت ہے، اسی طرح خدا کا وجود بھی اظہر من الشمس ہے۔ اگر کوئی ماضی کی حقیقت یا خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے تو دلیل اس پر لازم ہے، نہ کہ ماضی یا خدا کے ماننے والے پر۔

خدا کا تصور: ایک بدیہی حقیقت

آفاقیت (Universality)
خدا کا تصور تقریباً ہر تہذیب اور معاشرت میں موجود رہا ہے۔

◄ مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں خدا کے تصور میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن خالق کے وجود کا عمومی تصور سب میں مشترک ہے۔

◄ تاریخی طور پر، خدا پر یقین رکھنے والے افراد کی تعداد ملحدین کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔

جبلی فہم (Untaught Belief)
انسانی شعور خالق کے وجود کو سمجھنے کے لیے کسی تعلیم یا ثقافتی اثرات کا محتاج نہیں۔

◄ ماہر عمرانیات کا مشاہدہ: اگر ملحد والدین کے بچوں کو کسی ویران جگہ پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بھی کچھ وقت بعد خالق کے وجود کا یقین پیدا کرلیں گے۔ (BBC Today, 2008)

◄ خدا پر ایمان پیدا کرنے کے لیے کسی خارجی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک جبلی حقیقت ہے۔

فطری عقیدہ (Natural Belief)
انسان کا خالق پر ایمان رکھنا فطری ہے، اور یہ اس کی نفسیاتی ساخت کا حصہ ہے۔

◄ امام ابن تیمیہؒ: "خالق کا تصور تمام لوگوں کے دلوں میں مضبوطی سے گڑھا ہوا ہے۔” (Ibn Taymiyyah, 1991)

◄ مختلف تحقیقاتی مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ بچے فطرتی طور پر قدرتی اشیاء کو تخلیق شدہ سمجھتے ہیں۔

وجدانی شعور (Intuitive Understanding)
خدا کا تصور انسانی عقل اور وجدان کے لیے بالکل فطری ہے۔

◄ جب انسان کائنات میں نظم، مقصدیت، اور ہم آہنگی دیکھتا ہے تو اس کا وجدان خالق کے وجود کی طرف مائل ہوتا ہے۔

◄ خدا کا تصور کائنات کی سب سے سادہ اور جامع وضاحت فراہم کرتا ہے۔

خدا پر ایمان: فطرت اور نفسیات کے شواہد

نفسیاتی تحقیق

◄ پال بلوم (Paul Bloom): جدید نفسیاتی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچوں میں فطری طور پر خالق کے وجود کا شعور ہوتا ہے۔ (Bloom, 2007)

◄ ڈیبورا کیلمین (Deborah Kelemen): بچوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ فطری طور پر اشیاء کو کسی مقصد کے تحت تخلیق شدہ سمجھتے ہیں۔ (Kelemen, 2004)

سماجی اور عمرانی دلائل

◄ جسٹن بیریٹ (Justin Barrett): "بچے فطرتی طور پر ماوراء الفطرت خالق کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔” (Barrett, 2012)

◄ بچوں کا یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ خدا پر ایمان انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے، جو تعلیم یا سیکھنے سے آزاد ہے۔

فطرت اور وجدان کا کردار

اسلام میں فطرت کو انسان کی پیدائشی صلاحیت کہا گیا ہے جو اسے خدا کی پہچان کی طرف راغب کرتی ہے۔

◄ امام غزالیؒ: "اللہ تعالیٰ کی ذات کا شعور انسان کے شعور کی گہرائیوں میں موجود ہوتا ہے۔”

فطرت اور عقلی دلائل

عقلی دلائل کی اہمیت

عقلی دلائل خدا کی پہچان میں معاون ثابت ہوتے ہیں، لیکن ان کا مقصد فطرت کو جگانا ہوتا ہے۔

◄ امام ابن تیمیہؒ: "خدا کے وجود کا شعور ایک قدرتی امر ہے، اور دلیل صرف اس وقت ضروری ہوتی ہے جب فطرت میلا ہو جائے۔” (Ibn Taymiyyah, 2004)

فطرت کی صفائی

عقلی دلائل اور نشانیوں کا کام انسان کی فطرت کو صاف کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان سکے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، خدا پر ایمان فطرت کی ایک بنیادی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔

خلاصہ

خدا کا وجود ایک بدیہی، آفاقی، فطری، اور وجدانی حقیقت ہے۔ یہ تصور کسی مخصوص تعلیم، تہذیب، یا ثقافت کا محتاج نہیں بلکہ انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ جب کوئی خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے تو بارِ ثبوت اسی پر ہوتا ہے، نہ کہ خدا کو ماننے والوں پر۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے