خدا کو نہ ماننا: فطرت کے خلاف گمراہی
تحریر : ڈاکٹر زبیر

کیا خدا کو نہ مان سکنا فی زمانہ ایک عذر ہے؟

اس سوال پر غور کرتے ہی قرآن کی متعدد آیات ذہن میں آتی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ خدا کو نہ ماننا کوئی عذر نہیں ہے۔ اسلام میں اس معاملے پر مکمل وضاحت اور تاکید موجود ہے کہ خدا کو ماننا ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

حدیث نبوی کی روشنی میں

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس یہودی اور عیسائی تک میری نبوت کی خبر پہنچ گئی اور وہ ایمان لائے بغیر مر گیا، تو وہ جہنمی ہے۔” اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ایک انسان پر حق واضح ہو جائے اور وہ اس کے باوجود ایمان نہ لائے، تو وہ کوئی عذر نہیں بنا سکتا۔

دل کی کمزوری اور حقیقت کا انکار

یہ ایسے ہی ہے جیسے خدا نے ایک انسان کو آنکھیں دی ہوں، اور وہ کہے کہ وہ گرد کی وجہ سے کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ حالانکہ گرد کے باوجود، دیگر لوگ دیکھ رہے ہیں اور اپنے ماحول کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مسئلہ آنکھوں کا نہیں بلکہ دل کا ہوتا ہے جو حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ قرآن کی سورۃ المدثر کی آیات 11 سے 31 میں بھی اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ دل کی کمزوری کی وجہ سے حقیقت کا انکار کیا جاتا ہے۔

فطرت کی دلیل

اللہ تعالی نے ہر انسان کو فطرت پر پیدا کیا ہے اور اسلامی تعلیمات میں فطرت کا مطلب اسلام ہے۔ ہر انسان کے اندر قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ حق کو پہچان سکے، جیسے آنکھوں اور کانوں کے ذریعے انسان اپنے اردگرد کے حقائق کو محسوس کرتا ہے۔ نبیوں کا پیغام پہنچ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اب کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

"رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ”
(قرآن)
ترجمہ: "ہم نے رسول بھیجے جو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی حجت باقی نہ رہے۔”

حق کی رسائی کا دورِ حاضر میں کوئی عذر نہیں

آج کے دور میں قرآن مجید ہر ایک کی دسترس میں ہے، مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ اور ڈیجیٹل ذرائع پر دستیاب ہے۔ لہذا، یہ کہنا کہ کسی کو خدا کا پیغام نہیں پہنچا یا سمجھ میں نہیں آیا، کوئی وزنی عذر نہیں ہو سکتا۔

خدا کو نہ ماننے کا عذر اور گناہوں کی مثال

اگر ہم یہ مان لیں کہ خدا کو نہ مان سکنا ایک عذر ہے تو پھر وہ حالات جو ہمیں گناہ کرنے پر اکساتے ہیں، وہ بھی عذر بن سکتے ہیں۔ آج کے دور میں بے حیائی اور فحاشی عام ہے، اور ایک نوجوان کے لیے زنا سے بچنا مشکل ہو سکتا ہے، مگر پھر بھی اسے اس کے لیے عذر نہیں مانا جاتا۔ اسی طرح، خدا کو نہ ماننا بھی ایک شخص کے اندر کی کمزوری کی نشانی ہے، نہ کہ کوئی حقیقی عذر۔

خلاصہ

➊ خدا کو نہ ماننے کا عذر قرآن و حدیث کی روشنی میں غیر موزوں ہے۔
➋ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوا ہے اور حق کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
➌ نبیوں کا پیغام پہنچ جانے کے بعد کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔
➍ آج کے دور میں قرآن اور دین کی تعلیمات ہر ایک کی دسترس میں ہیں، اس لیے علم کا فقدان یا حق تک رسائی کا نہ ہونا کوئی بہانہ نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!