جواہر لال نہرو کی فکری الجھن
پنڈت جواہر لال نہرو، دنیا کے تیسرے بڑے ملک بھارت کے وزیر اعظم، 1964ء کے اوائل میں ایک بین الاقوامی مستشرقین کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اپنے خطاب میں نہرو نے کہا:
"میں ایک سیاستدان ہوں، اور مجھے سوچنے کا کم موقع ملتا ہے، لیکن کبھی کبھی میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ یہ دنیا کیا ہے، کس لیے ہے، ہم کیا ہیں، اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ کچھ طاقتیں ہیں جو ہماری تقدیر بناتی ہیں۔”
(بحوالہ: National Herald, 6 جنوری 1964)
خدا سے دوری کا نتیجہ: دائمی بے اطمینانی
نہرو کے یہ خیالات ایک ایسی روحانی بے اطمینانی کو ظاہر کرتے ہیں، جو ان تمام لوگوں پر چھائی رہتی ہے جنہوں نے خدا کو اپنا الہٰ اور معبود بنانے سے انکار کیا ہو۔ دنیاوی مشغولیات وقتی اطمینان فراہم کرتی ہیں، لیکن جیسے ہی یہ مصنوعی ماحول ختم ہوتا ہے، انسان کی اندرونی حقیقت چیخ اٹھتی ہے، اور وہ یاد دلاتی ہے کہ حقیقی سکون کہیں کھو گیا ہے۔
یہ بے اطمینانی محض دنیاوی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک دائمی خطرے کی علامت ہے، جو موت کے بعد ایک ہولناک زندگی کے آثار کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ اس آگ کا دھواں ہے، جو انسان کو بیدار کرنے کے لیے ہوتا ہے، مگر اگر کوئی وقت پر جاگ نہ سکے، تو آگ اسے مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اخلاقیات اور سماجی نظام کی بے سمتی
نہرو سے ایک ملاقات کے دوران، مائیکل بریچر نے ان سے سماج اور زندگی کے فلسفے کے بارے میں سوال کیا۔ نہرو کا جواب تھا کہ سماج کے لیے اخلاقی معیار ضروری ہیں، مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان معیارات کو جدید زندگی میں کیسے نافذ کیا جائے۔ ان کے نزدیک مذہب کی بنیاد پر اخلاقیات تنگ نظر لگتی تھیں۔
(Nehru: A Political Biography, 1959، صفحہ 607-608)
یہ رویہ جدید انسان کی سب سے بڑی خلا کو ظاہر کرتا ہے: دیانت و اخلاق کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب کی اہمیت کا انکار۔ بے خدا تہذیب میں شخصی اور سماجی نظریات کا ٹکراؤ، مادی خوشی کو زندگی کا مقصد بناتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ افراد سماجی نظام کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ ہر شخص اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق پامال کرتا ہے، جس سے سماج بددیانتی، چوری، رشوت، اور دیگر جرائم میں ڈوب جاتا ہے۔
بے خدا تہذیب کا انجام
مغربی دنیا میں، مادی خوشی کو زندگی کا نصب العین بنانے کے باعث خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے۔ والدین کی علیحدگی کے نتیجے میں بچے یتیمی جیسی حالت میں پل رہے ہیں، اور یہ بچے جلد ہی جرائم کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ سر الفریڈ ڈیننگ نے کہا:
"اکثر نابالغ مجرم اجڑے ہوئے گھرانوں سے آتے ہیں۔”
(The Changing Law, صفحہ 111)
مادی ترقی اور اعصابی بیماریاں
موجودہ دور میں مادی ترقیات کے باوجود اعصابی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں، بڑی تعداد میں نفسیاتی امراض کے شکار مریض ملتے ہیں، جن کی بنیادی وجوہات مایوسی، خوف، اور خودغرضی ہیں۔ یہ سب بے خدا زندگی کا نتیجہ ہیں، جو انسان کو روحانی سکون سے محروم کر دیتی ہیں۔
عقیدے کی طاقت اور صحت
ماہرین کے مطابق، خدا پر ایمان انسان کو وہ اعتماد فراہم کرتا ہے، جو مشکلات میں سہارا بنے۔ عقیدے کی طاقت کو سر ولیم اوسلر نے "عظیم قوت محرکہ” کہا، جو نفسیاتی صحت کا خزانہ ہے۔ جدید نفسیات کے ماہرین جیسے سی جی جنگ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ:
"زندگی کے نصف حصے کے بعد، میرے تمام مریض مذہبی نقطۂ نظر کے بغیر شفا یاب نہ ہو سکے۔”
(بحوالہ: Science and Christian Belief, صفحہ 110)
جدید دنیا کا تضاد
جدید معاشرہ ایک طرف مادی ترقی کر رہا ہے، اور دوسری طرف مذہب کو ترک کرکے ایسے حالات پیدا کر رہا ہے، جو زندگی کو مزید عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ایک امریکی ڈاکٹر پال ارنسٹ ایڈولف کے الفاظ میں، امید ختم ہونے کے بعد جسمانی صحت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
"اس بوڑھی خاتون کی موت زخمی کولھے کی وجہ سے نہیں، بلکہ دل کے صدمے کی وجہ سے ہوئی۔”
(The Evidence of God, صفحہ 212-214)
نتیجہ
موجودہ دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نے خدا کو ترک کر دیا ہے۔ مادی ترقی کے باوجود، خوشحال زندگی کا خواب حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکا۔ روحانی خلا نے انسان کو ایسے مسائل میں مبتلا کر دیا ہے، جن کا حل سائنسی ترقی سے ممکن نہیں۔