خاوند پر واجب ہے کہ عورت کی شرائط پوری کرے
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحق الشروط أن يوفــي بـه مـا استحللتم به الفروج
”وہ شرط پورا کیے جانے کی زیادہ مستحق ہے جس کے ذریعے تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے ۔“
[بخاري: 2721 ، كتاب الشروط: باب الشروط فى المهر عند عقدة النكاح ، مسلم: 1418 ، أحمد: 144/4 ، ابو داود: 2139 ، نسائي: 92/6 ، ترمذى: 1127 ، ابن ماجة: 1954 ، عبد الرزاق: 10613 ، دارمي: 143/2 ، أبو يعلى: 1754 ، بيهقي: 248/7]
اس حدیث کے علاوہ دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی شرط کو پورا کرنا لازم ہے الا کہ ایسی شرط ہو جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال کر دے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [المائدة: 1]
”عہد و پیمان پورے کرو ۔ “
اور ایک حدیث میں ہے:
المسلمون على شروطهم إلا شرطا أحل حراما أو حرم حلالا
”مسلمان آپس کی شرائط پر (نافظ ) ہیں الا کہ کوئی ایسی شرط ہو جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔“
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 3063 ، كتاب الأقضية: باب فى الصلح ، إرواء الغليل: 1303 ، أحمد: 366/2 ، ابو داود: 3594 ، ابن الجارود: 638 ، دارقطني: 96 ، حاكم: 49/2 ، بيهقى: 64/6]
ان شروط سے کیا مراد ہے (جنہیں عورت کی طرف سے مرد پر پورا کرنا لازم ہے ) اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کہ اس سے مراد ادائیگی مہر ہے کیونکہ مہر و طی سے مشروط ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ زوجیت کے تقاضے عورت جس چیز کی بھی مستحق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ وہ شرط ہے جو نکاح کے لیے آمادہ کرنے کے لیے مرد نے عورت سے طے کی ہو اور شریعت میں ممنوع نہ ہو ۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی آخری قول زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں جس حدیث میں ہے کہ :
ما كان من شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط
”بشرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے خواہ ایسی سو (100) شرطیں ہی کیوں نہ ہوں ۔“
[بخاري: 2729 ، كتاب الشروط: باب الشروط فى الولاء]
اس سے مراد ایسی شروط ہیں جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دیں اور جو ایسی نہیں ہیں وہ کتاب اللہ میں ہی شامل ہیں جیسا گذشته حديث
المسلمون على شروطهم
کا عموم اس پر دلالت کرتا ہے۔
الا کہ کوئی شرط حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دینے والی ہو
جیسا کہ گذشتہ مسئلے میں اس سے ممانعت کی حدیث ذکر کی گئی ہے۔
بعض شروط سے واضح طور پر بھی ممانعت مروی ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنی کسی (سوکن ) بہن کی طلاق کی شرط اس لیے لگائے تا کہ اس کے حصے کا پیالہ بھی خود انڈیلے کیونکہ اسے وہی ملے گا جو اس کے مقدر میں ہو گا ۔
[بخاري: 5152 ، كتاب النكاح: باب الشروط العى لا تحل فى النكاح ، مسلم: 1408]
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جائز نہیں کہ ایک عورت سے دوسری کی طلاق کے بدلے میں نکاح کیا جائے ۔“
[احمد: 176/2]
اس کے علاوہ وہ بھی تمام شروط جو نکاح کے منافی ہیں انہیں پورا کرنا جائز نہیں مثلا یہ کہ عورت کہے کہ میری سوکن کے لیے منقسیم نہیں کرے گا یا اسے خرچ نہیں دے گا وغیرہ وغیرہ۔