خالق کی حکمت اور دنیاوی نعمتوں کی تقسیم

بابا اور بیٹی کے درمیان ایک اہم گفتگو

بابا اور بیٹی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو خالق کی جانب سے دنیا میں دی جانے والی مختلف نعمتوں، آزمائشوں اور درجہ بندیوں کے بارے میں ایک گہری اور سوچنے پر مجبور کرنے والی بات ہے۔

بیٹی کا سوال

فیمنزم کے اثرات کے تحت بیٹی نے اعتراض کیا کہ کیوں مرد کو قرآن میں عورت پر ایک درجہ زیادہ دیا گیا ہے؟ اسے یہ بات ناانصافی لگتی تھی، اور وہ مذہبی دلائل کے آگے بے بس محسوس کر رہی تھی۔

بابا کی وضاحت

بابا نے اسے سمجھانے کے لیے دنیا میں موجود مختلف مثالوں کا سہارا لیا:

  • آئی کیو لیول کا فرق: کچھ بچے دن رات پڑھنے کے باوجود اچھے نمبر حاصل نہیں کر پاتے، جبکہ دوسرے آسانی سے اچھے گریڈ لے لیتے ہیں۔
  • خوبصورتی اور ظاہری شکل: کچھ بچیوں کی صاف اسکن قدرتی ہوتی ہے، جبکہ کچھ کو جلد کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
  • صحت کے معاملات: کچھ لوگ صحت مند ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کو بیماریوں سے لڑنا پڑتا ہے۔

بابا نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ تمام چیزیں قدرت کی تقسیم ہیں، تو کیا یہ بھی ناانصافی کے زمرے میں آتی ہیں؟

دنیاوی نابرابری کی حقیقت

بابا نے اسے بتایا کہ دنیا میں بے شمار لوگ مختلف لحاظ سے مشکلات اور محرومیوں کا شکار ہیں، مثلاً:

  • پونے دو ارب لوگ بغیر گھر کے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
  • ساڑھے اٹھائیس کروڑ لوگ بصارت سے محروم ہیں۔
  • انیس کروڑ لوگ معذور ہیں۔
  • تین ارب لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

خالق کی حکمت

بابا نے یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر خالق نے کسی طبقے کو کسی معاملے میں درجہ دیا ہے تو اس پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی زندگی میں موجود دیگر نعمتوں اور درجہ بندیوں پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک چیز کو لے کر مایوس ہونا درست نہیں، جبکہ دیگر بے شمار نعمتیں خاموشی سے قبول کر لی جائیں۔

نتیجہ

گفتگو کے آخر میں بیٹی نے اپنی بحث کو مؤخر کیا اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ٹیوٹر کے لیے نکل گئی، مگر یہ بات اس کے لیے سوچنے کا باعث ضرور بن گئی کہ نابرابری کا تصور خالص ناانصافی نہیں بلکہ خالق کی تقسیم اور حکمت کا حصہ ہو سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے