حیض نفاس اور استحاضہ کے احکام و مسائل

حیض کی تعریف

حیض اس سیاہی مائل خون کو کہا جاتا ہے جو بالغہ عورت کے رحم سے ہر ماہ مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے۔

عموماً حیض کی مدت تین سے سات دن ہوتی ہے۔

حیض و نفاس کے دوران ممنوع اعمال

➊ نماز اور روزے کی ممانعت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ رمضان کے روزے رکھتی ہے۔‘‘
(بخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، ۴۰۳۔ مسلم، الایمان، باب بیان نقصان الایمان۹۷.)

معاذۃ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا:
"کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضا دیتی ہے لیکن نماز کی نہیں؟”
ام المومنین نے جواب دیا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا مگر نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔”
(مسلم، الحیض، باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلوۃ، ۵۳۳.)

➋ حیض کی حالت میں صحبت کی ممانعت

قرآن مجید میں ارشاد ہے:
(فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ)
(البقرۃ: ۲۲۲)
’’پس (ایام) حیض میں عورتوں سے کنارہ کشی کرو (یعنی صحبت نہ کرو)۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص بحالت حیض اپنی عورت سے صحبت کرے تو اسے چاہیے کہ ایک دینار یا نصف دینار خیرات کرے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ باب اتیان الحائض، ۴۶۲، امام حاکم ۱/۱۷۱۔۲۷۱ اور ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونا، نصف دینار سوا دو ماشے سونا ہے۔ سونا کسی مستحق کو دے اور توبہ کرے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:
اگر حیض کا رنگ سرخ ہو تو ایک دینار، اور اگر پیلا ہو تو نصف دینار صدقہ دے۔
(ترمذی، الطھارۃ، باب ما جاء فی الکفارۃ فی ذالک: ۷۳۱، ابو داؤد: ۵۶۲، البانی نے موقوف روایت کو صحیح کہا۔)

➌ طواف کعبہ کی ممانعت

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو گئی، راستے میں مجھے حیض آ گیا، میں رو رہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’یہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے جو اس نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے،
تم ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتے ہیں سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے، اور وہ طواف تم غسل کے بعد کرو۔‘”
(بخاری: الاضاحی باب الاضحیۃ للمسافر والنساء: ۸۴۵۵، مسلم: ۹۱۱۔(۱۱۲۱).)

حیض اور نفاس میں جائز اعمال

➊ حائضہ کو چھونا اور اس کے ساتھ کھانا پینا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"یہودی حائضہ عورت سے کھاتے پیتے نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘حائضہ سے ہر کام کرو سوائے جماع کے’۔”
(مسلم، الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا ۲۰۳.)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے (حالت حیض میں) ازار باندھنے کا حکم دیتے، میں ازار باندھتی، آپ مجھے گلے لگاتے تھے۔”
(بخاری، الحیض، باب مباشرۃ الحائض، حدیث ۰۰۳، مسلم، الحیض، باب مباشرت الحائض فوق الازار، ۳۹۲.)

ایک اور حدیث:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں مجھے بوریا پکڑانے کا حکم دیا۔
میں نے کہا میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘”
(مسلم، الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا ۸۹۲.)

نیز:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں قرآن پڑھتے تھے حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔”
(بخاری، الحیض، باب قراءۃ الرجل فی حجر امراتہ وھی حائض، ۷۹۲، مسلم: ۱۰۳.)

➋ قرآن کی تلاوت اور اذکار

حیض و جنابت کی حالت میں قرآن پڑھنے کی حرمت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حائضہ کے لیے تسبیح، تحمید، تکبیر، دعا اور اذکار بالاجماع جائز ہیں۔”
(المجموع)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے دلیل:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’بیت ﷲ کے طواف کے علاوہ ہر کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔‘”
(بخاری، الحیض، باب الامر بالنفساء اذا نفسن، ۴۹۲، مسلم: ۱۱۲۱.)

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور دعا کریں،
البتہ نماز نہ پڑھیں۔”
(بخاری، العیدین، باب اعتزال الحیض المصلی، ۱۸۹، مسلم: ۰۹۸.)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔”
(مسلم، الحیض، باب ذکر اللہ تعالی فی حال الجنابۃ وغیرھا، ۳۷۳.)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ:
"صحیح قول کے مطابق حیض و نفاس والی عورت قرآن پڑھ سکتی ہے کیونکہ کوئی صریح ممانعت موجود نہیں۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: ۹۱۳.)

البتہ قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ:
"اس پر اجماع ہے کہ حدثِ اکبر والے شخص کے لیے قرآن چھونا جائز نہیں،
صرف امام داؤد نے اختلاف کیا۔”
(نیل الاوطار)

استحاضہ کا تفصیلی بیان

استحاضہ کی تعریف

استحاضہ وہ خون ہے جو حیض کے ایام کے بعد زرد یا مٹیالے رنگ میں جاری ہوتا ہے۔

یہ ایک مرض ہے اور اس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت:
سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
"مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں، یہ ایک رگ کا خون ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو،
جب بند ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھو۔‘‘
(بخاری، الحیض، باب الاستحاضۃ، ۶۰۳، مسلم، الحیض، باب المستحاضۃ وغسلھا، ۳۳۳.)

دوسری حدیث:
"حیض کا خون سیاہ رنگ کا ہوتا ہے، اگر وہ آئے تو نماز چھوڑ دو،
اگر دوسرا رنگ ہو تو وضو کر کے نماز پڑھو۔”
(ابو داود، الطہارۃ، باب من قال إذا أقبلت الحیضۃ تدع الصلاۃ: ۶۸۲.)

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا:
"ہم حیض کے علاوہ زرد یا مٹیالے رنگ کی پرواہ نہ کرتی تھیں۔”
(بخاری: ۶۲۳، ابو داؤد، الطھارۃ باب فی المراۃ تری الصفرۃ: ۷۰۳.)

استحاضہ اور حیض میں فرق

حیض کا خون سیاہ، گاڑھا، بدبودار ہوتا ہے۔ مدت مکمل ہونے کے بعد زرد یا مٹیالا خون آ جائے تو وہ استحاضہ ہے۔

فرق پہچاننے والی عورت حیض پر نماز چھوڑے گی اور استحاضہ کے دوران ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔

اگر پہچان نہ ہو مگر عادت معلوم ہو تو عادت کے مطابق نماز چھوڑے، باقی دنوں کو استحاضہ سمجھے۔

اگر عادت بھی معلوم نہ ہو تو قریبی رشتہ دار کی عادت کے مطابق عمل کرے گی۔

مستحاضہ کے احکام

حیض ختم ہونے پر غسل کرے۔

ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے۔
(بخاری، الوضو، باب غسل الدم: ۸۲۲.)

نماز، روزہ، اعتکاف، طواف جیسے تمام عبادات انجام دے سکتی ہے۔

اس سے مجامعت جائز ہے۔
(ابو داؤد، الطہارۃ، باب المستحاضۃ یغشاہا زوجہا: ۰۱۳.)

نفاس کا حکم

نفاس کی مدت

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا:
"نفاس والی عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن بیٹھا کرتی تھیں۔”
(ابو داؤد: ۱۱۳، ترمذی: ۹۳۱، ابن ماجہ: ۸۴۶)

اکثر اہل علم کے نزدیک نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔

اگر چالیس دن کے بعد بھی خون آئے تو وہ استحاضہ ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ:
"اگر ولادت کے بعد خون نہ آئے تو عورت کو غسل کر کے نماز پڑھنی چاہیے۔”

نفاس میں ممنوع اعمال

نماز، روزہ، اور جماع ممنوع ہے، جیسے حیض میں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ:
"اگر عورت چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو غسل، نماز، روزہ اور شوہر سے تعلق جائز ہے۔
نفاس کی کم سے کم مدت کی کوئی حد نہیں۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: ۵۲۳.)

شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ:
"اگر تیسرے ماہ بچہ ضائع ہو اور اعضاء بننا شروع ہو گئے ہوں تو اس کے بعد والا خون نفاس شمار ہو گا،
ورنہ وہ فاسد خون کہلائے گا۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: ۷۲۳.)

نفاس کی نمازوں کی قضا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاس کے دوران فوت شدہ نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا۔
(ابو داؤد، الطہارۃ، باب ما جاء فی وقت النفساء، ۲۱۳، امام حاکم و ذہبی نے صحیح کہا۔)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1