حیات مسیحؑ: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ” سے موت مراد؟ – ایک تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

1. سیاق و سباق کی روشنی میں "توفی” کی وضاحت:

"إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ”

(آلِ عمران: 55)

دعویٰ: قادیانی اور غامدی مکتبِ فکر یہاں "توفی” کو موت پر محمول کرتے ہیں۔

رد: اگر یہاں "توفی” سے مراد وفات ہو، تو اللہ کی تدبیر (وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّـهُ) یہود کے مکرو فریب کے حق میں ہو جاتی ہے، جو کہ واضح طور پر قرآن کے خلاف ہے۔

2. "توفی” کا لغوی مفہوم – قرآن کی روشنی میں

آیت:

"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا”

(الزمر: 42)

تشریح: یہاں "توفی” کا مطلب صرف موت نہیں، بلکہ نیند کی حالت میں بھی روح کا قبض کیا جانا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ "توفی” کا مطلب ہمیشہ موت نہیں ہوتا۔

آیت:

"وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ”

(الأنعام: 60)

تشریح: یہاں توفی کا استعمال نیند کے موقع پر ہوا ہے، جو موت کے علاوہ ہے۔

آیت:

"حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ”

(النساء: 15)

تشریح: یہاں "توفی” کے ساتھ "موت” بھی آیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ توفی اور موت دو الگ چیزیں ہیں، اور جب موت مراد ہو تو قرآن اسے علیحدہ بیان کرتا ہے۔

3. حضرت عیسیٰؑ کی رفع کا قرآنی بیان

آیت:

"وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ … بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ”

(النساء: 157-158)

تشریح: یہاں قتل اور صلیب کی مکمل نفی کی گئی ہے، اور "بل” کے بعد "رَفَعَهُ” کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

4. رفع سے مراد جسمانی رفع

غامدی صاحب کے مطابق صرف روح اٹھائی گئی، جسم آسمان پر لے جایا گیا تاکہ لاش کی توہین نہ ہو۔
(ماہنامہ اشراق، اپریل 1995، صفحہ 45 اور جولائی 1994، صفحہ 32)

رد: قرآن نے "رَافِعُكَ إِلَيَّ” کہا — اگر صرف عزتِ معنوی مراد ہوتی تو "رافع درجتک” یا اس جیسا کوئی تعبیر آتا۔
ماضی میں دوسرے انبیاء کی شہادت کی اجازت دی گئی، جیسے:

"وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ”

(البقرۃ: 61)

تو حضرت عیسیٰ کے لیے اس تحفظ کا مطلب زندہ اٹھایا جانا ہے۔

5. نزولِ عیسیٰ کی قرآنی تائید

آیت:

"وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا”

(آل عمران: 46)

تشریح: "کَهلًا” یعنی ادھیڑ عمر میں کلام کرنا، اس وقت ممکن ہے جب وہ دوبارہ آئیں گے کیونکہ رفع سے قبل وہ نوجوان تھے۔ یہ مستقبل کی بات ہے۔

آیت:

"وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ”

(الزخرف: 61)

تشریح: مفسرین (ابن عباس، قتادہ، مجاہد وغیرہ) کے مطابق یہاں "عِلمٌ” بمعنی "علامةٌ” یعنی حضرت عیسیٰ کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر، زیر آیت الزخرف: 61)

آیت:

"وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ”

(النساء: 159)

تشریح: حضرت ابوہریرہؓ، ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کی روایت ہے کہ "موت” سے مراد حضرت عیسیٰؑ کی وفات نہیں بلکہ نزول کے بعد کا وقت ہے۔
(تفسیر بیضاوی، جلد 1، صفحہ 255)

6. حدیث کی متواتر تائید

  • "اللہ کی قسم! عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے، عدل کے ساتھ فیصلہ کریں گے…”
    (صحیح بخاری: 3448، کتاب الانبیاء)
  • "میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا… یہاں تک کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔”
    (صحیح مسلم: 156)

وضاحت: یہ احادیث نہ صرف صحیح ہیں بلکہ متواتر معنوی درجے پر فائز ہیں۔ انکار، اصول حدیث اور عقیدہ میں انحراف ہے۔

7. اجماع امت کا موقف

  • امام طحاویؒ: "ہم نزول عیسیٰ پر ایمان رکھتے ہیں”
    (العقیدۃ الطحاویہ، شرح ابن ابی العز، ص 375)
  • فتاویٰ دارالعلوم دیوبند و اہل حدیث و اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کا اتفاق کہ نزولِ مسیح پر ایمان واجب ہے۔
  • شیخ ابن بازؒ: "نزولِ عیسیٰ کا انکار کفر ہے”
    (مجموع فتاویٰ ابن باز، جلد 4، ص 325)

نتیجہ

غامدی اور قادیانی مکتب فکر نے قرآن کی ایک آیت سے موت کا مفہوم اخذ کر کے:

  • دیگر واضح قرآنی آیات کی مخالفت کی
  • صحیح و متواتر احادیث کو رد کیا
  • اجماع امت سے انکار کیا
  • ایک غیر روایتی نظریہ گھڑا جو نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ سنت سے

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1