تعارف
سوشل میڈیا اور عوامی مباحث میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق توہین رسالت کے مجرم کی سزا موت نہیں ہے۔ اس بحث کو بنیاد بنا کر کئی لوگ، خصوصاً عرفات مظہر اور ان کے حامی، یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ موجودہ قانون توہین رسالت کو ختم یا تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس مضمون میں ہم عرفات مظہر کی تحقیقات، ان کے دعووں اور ان کی تحریک کا علمی جائزہ لیں گے۔
عرفات مظہر: مختصر تعارف
عرفات مظہر ایک کمپیوٹر انجینیئر ہیں اور انہوں نے 2007 میں FAST یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کی۔ حالیہ برسوں میں انہوں نے قانون توہین رسالت پر تحقیقاتی اور وکالتی سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ ان کی تحقیق کا مرکزی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی لائی جائے اور غیر مسلم شاتم رسول کے لیے موت کی سزا کو ختم کیا جائے۔
تحریک کا مقصد اور حکمت عملی
- توہین رسالت کے قوانین میں ترامیم۔
- غیر مسلم شاتم رسول کے لیے موت کی سزا کا خاتمہ۔
- فقہ حنفی کے بعض اقوال کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنا کہ حنفی فقہ اس سزا کا قائل نہیں۔
عرفات مظہر کے بقول، موجودہ قانون اسلامی فقہ کی بنیاد پر بنایا گیا ہے، لہٰذا اسے اسلامی فقہ ہی کی بنیاد پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شریعت کے فقہی ذخیرے کو استعمال کرکے اس قانون کے "دو ستون” یعنی اس کے "حد” ہونے اور "اجماع” پر مبنی ہونے کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
فقہ حنفی اور توہین رسالت: حقائق اور دلائل
1. غلط دعویٰ: حنفی فقہ میں شاتم رسول کی سزا موت نہیں
عرفات مظہر کا دعویٰ ہے کہ امام ابو حنیفہ اور دیگر حنفی علماء غیر مسلم گستاخ رسول کے لیے موت کی سزا کے قائل نہیں تھے۔ اس دعویٰ کی حقیقت درج ذیل ہے:
- خلاصہ الفتاویٰ کا حوالہ:
امام افتخار الدین طاہر بن احمد البخاری (وفات 542ھ) اپنی کتاب خلاصہ الفتاویٰ میں لکھتے ہیں:
"جو شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کی سزا قتل ہے اور اس پر تمام فقہاء کا اجماع ہے۔”
(خلاصہ الفتاویٰ، جلد 4، صفحہ 386) - امام ابن عابدین الشامی کی وضاحت:
امام ابن عابدین الشامی نے رد المحتار میں واضح کیا ہے کہ متقدمین اور متاخرین حنفی علماء کے ہاں یہ مسئلہ متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔
(رد المحتار، جلد 3، صفحہ 173)
2. ذمی شاتم رسول کی سزا
عرفات مظہر کا موقف ہے کہ ذمی (غیر مسلم) گستاخ رسول کا عہد نہیں ٹوٹتا اور اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے حنفی فقہ میں واضح صراحت موجود ہے:
- تفسیر مدارک التنزیل کا حوالہ:
امام النسفی (وفات 710ھ) اپنی تفسیر مدارک التنزیل میں لکھتے ہیں:
"جب کوئی ذمی کھلے عام اسلام کے خلاف طعن و تشنیع کرے، تو اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے اور اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔”
(تفسیر مدارک التنزیل، جلد 1، صفحہ 667) - برصغیر کے علماء کا موقف:
برصغیر کے اکابر علماء جیسے قاضی ثناء اللہ پانی پتی، مولانا اشرف علی تھانوی، اور مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بھی واضح طور پر غیر مسلم گستاخ رسول کے لیے موت کی سزا کا موقف اختیار کیا۔
(امداد الفتاویٰ، جلد 4، صفحہ 166)
3. عرفات مظہر کے دعووں کی حقیقت
عرفات مظہر اپنے دعووں کو تقویت دینے کے لیے 19ویں صدی میں لکھی گئی کتاب فتح المبین کا حوالہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ 450 علماء نے اس میں غیر مسلم شاتم رسول کی معافی کے موقف کی توثیق کی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ درج ذیل وجوہات کی بنا پر غلط ہے:
- علماء نے کتاب کے صرف بعض مقامات کی تصدیق کی تھی، نہ کہ اس کے تمام مضامین کی۔
- برصغیر کے دیگر فتاویٰ جیسے فتاویٰ رضویہ اور امداد الفتاویٰ میں غیر مسلم گستاخ رسول کے لیے موت کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔
موجودہ قانون کا پس منظر
پاکستان کا قانون توہین رسالت جمہور امت کے موقف کے عین مطابق ہے۔ اس قانون کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کی کوشش کا مقصد نہ صرف اسلامی اصولوں کو کمزور کرنا ہے بلکہ اسے معاشرتی فساد کا باعث بننے دینا بھی ہے۔
کرنے کے کام
- قانون کا غلط استعمال روکنا: قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے انتظامی اقدامات بہتر بنائے جائیں اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
- عوامی شعور بیدار کرنا: لوگوں کو توہین رسالت کے مسئلے اور اس کی سنگینی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
- قانون کے دفاع کے لیے تحقیقی کام: موجودہ قوانین کے فقہی اور قانونی پہلوؤں پر مزید تحقیقی کام کیا جائے تاکہ ان پر اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا جا سکے۔
نتیجہ
عرفات مظہر کی تحقیقات اور دعوے فقہی اصولوں اور تاریخی حقائق کے برخلاف ہیں۔ ان کا مقصد صرف موجودہ قانون کو ختم کرنا ہے، نہ کہ شریعت کی اصل روح کو نافذ کرنا۔ حنفی فقہ کے متقدمین اور متاخرین کی آراء واضح طور پر گستاخ رسول کے لیے موت کی سزا کو تسلیم کرتی ہیں، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔