حلال جانوروں کے پیشاب کی پاکیزگی پر بحث
اصل مضمون ابو یحییٰ امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

اہل حق کی دلیل طلبی اور حلال جانوروں کے پیشاب کا مسئلہ

اہل حق ہمیشہ دلیل کے ساتھ اپنی بات پیش کرتے ہیں اور دوسروں کی بات کی بھی دلیل طلب کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو بغیر تحقیق کے ہر قسم کی بات اپنی کتابوں میں شامل کرتے ہیں، چاہے اس سے صحابہ کرام کی گستاخی ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ دیوبندی علماء کی طرف سے حلال جانوروں کے پیشاب کو ناپاک قرار دینے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے، جس کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے۔

شیخ انور شاہ کشمیری کا بیان

جناب یوسف بنوری نے شیخ انور شاہ کشمیری کا حوالہ دیا ہے جہاں وہ ایک حدیث کے تحت قصہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صالح صحابی کی تدفین کے بعد ان کی بیوی سے ان کے اعمال کے متعلق پوچھا۔ بیوی نے بتایا کہ وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور پیشاب سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پیشاب سے بچو کیونکہ زیادہ تر عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے۔ کشمیری صاحب نے اس قصے کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے تو فیصلہ کن دلیل بن جائے گی۔
حوالہ: (معارف السنن از بنوری، جلد 1، صفحہ 276)

محمد تقی عثمانی کا بیان

محمد تقی عثمانی نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت گنگوہی نے مویشی چرانے والے صحابی کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ پیشاب سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ تقی عثمانی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ انہیں کسی کتاب میں نہیں ملا، لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے تو اس مسئلے میں نص صریح کا درجہ رکھتا ہے۔
حوالہ: (درس ترمذی، جلد 1، صفحہ 290)

ظفر احمد تھانوی کا بیان

ظفر احمد تھانوی نے لکھا کہ انہیں یہ واقعہ مستدرک میں نہیں ملا، اور شاید امام حاکم نے اسے کسی اور کتاب میں نقل کیا ہو۔
حوالہ: (تعلیق إعلاء السنن، جلد 1، صفحہ 440)

جلالہ کی حدیث اور اس کا مفہوم

تقی عثمانی صاحب نے جلالہ کی حدیث کا حوالہ دیا، جہاں نبی ﷺ نے جلالہ (گندگی کھانے والے جانور) کا گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع کیا ہے۔ تقی عثمانی صاحب اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ حلال جانوروں کا پیشاب اور گوبر بھی نجس ہوتا ہے۔ تاہم، جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں جو نجاست کھاتا ہو اور اس کے جسم میں بدبو پیدا ہو جائے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر جانور سے بدبو نہ آئے تو وہ جلالہ نہیں کہلائے گا۔
حوالہ: (روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتین، جلد 3، صفحہ 278)

ابن حزم کی تنقید

ابن حزم نے ابو حنیفہ کے موقف پر شدید تنقید کی ہے، جہاں انہوں نے کہا کہ حلال جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دینا غیر منطقی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں ہے۔ ابن حزم کے مطابق، تمام پیشاب کو نجس قرار دینا اور پھر اس میں بعض جانوروں کے پیشاب کو ناپاک نہ ماننا تضاد پر مبنی ہے۔
حوالہ: (المحلی بالآثار، جلد 1، صفحہ 170)

صحابہ کرام کی روایات کا جائزہ

صحابہ کرام کے حوالے سے روایات میں بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ حلال جانوروں کے پیشاب کو ناپاک سمجھا گیا ہو۔ مثال کے طور پر، صحیح بخاری میں عذاب قبر کی حدیث خاص انسانی پیشاب کے بارے میں ہے، نہ کہ حلال جانوروں کے پیشاب کے بارے میں۔
حوالہ: (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 216، 218، 1378، 6052)

صحیح ابن خزیمہ میں لید کی روایت

صحیح ابن خزیمہ میں ایک روایت موجود ہے جس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے گدھے کی لید کو نجس قرار دیا۔
حوالہ: (صحیح ابن خزیمہ، جلد 1، صفحہ 39، حدیث نمبر: 70)

فقہ حنفی میں پیشاب اور نجاست کا بیان

فقہ حنفی میں لکھا ہے کہ اگر ایک درہم کے برابر نجاست کپڑے پر لگی ہو تو نماز ہو جاتی ہے، اور حلال جانوروں کا پیشاب ناپاک نہیں سمجھا جاتا، جب تک کہ وہ زیادہ مقدار میں نہ ہو۔
حوالہ: (الہدایۃ للمرغینانی، جلد 1، صفحہ 37)

نتیجہ

دیوبندی اور حنفی علماء کی طرف سے حلال جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دینے کے لیے کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔ صحابہ کرام اور محدثین کی احادیث میں واضح طور پر حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہونے کا ذکر ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا کی تھی اور وہاں کوئی ناپاکی کی نشاندہی نہیں کی۔
حوالہ: (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 216، 218، 1378، 6052)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے