حفاظت حدیث بذریعہ کتابت
تحریر: محمد ارشد کمال، ماہنامہ نور الحدیث

حفاظت حدیث بذریعہ کتابت

حفاظت حدیث کا ایک بڑا اہم ذریعہ کتابت ہے ۔ حفاظت حدیث کا یہ ذریعہ دور نبوی سے مسلسل چلا آ رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ حدیث لکھوایا کرتے تھے اور لکھنے کا حکم بھی دیا کرتے تھے، لہٰذا یہ کہنا کہ حدیث اڑھائی سو سال بعد لکھی گئی ہے، اس سے پہلے نہیں لکھی جاتی تھی ، سراسر غلط اور مبنی پر جہالت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور مسعود سے لے کر آج تک ہر دور میں حدیث کی کتابت ہوتی رہی ہے۔ کوئی دور بھی کتابت حدیث سے خالی نہیں رہا۔

کتابت حدیث عہد نبوی میں

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے مکہ فتح کر دیا تو آپ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد وثنا بیان کی ، پھر فرمایا:

”بے شک اللہ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا تھا اور مکہ کا اقتدار اپنے رسول اور مومنوں کو سونپ دیا ۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے مکہ( میں جنگ کرنا)حلال نہیں تھا اور میرے لیے بھی یہ محض دن کی ایک گھڑی حلال ہوا ہے۔ میرے بعد یہ کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔ پس اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے اور نہ اس کے کانٹوں والے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کے راستے میں پڑی ہوئی چیز اعلان کرنے والے کے سوا کوئی اٹھائے اور جس کا کوئی مقتول اس میں قتل کیا گیا ہو تو اس کو دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے کہ وہ دیت لے لے یا قصاص ۔‘‘

سیدنا عباسؓ نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول ! اذخر ( خشک گھاس) کی اجازت دے دیں کیونکہ ہم اس کو اپنی قبروں اور گھروں میں ۔ استعمال کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:

(إِلَّا الأَذْخِرَ)

یعنی اذخر (گھاس) کی اجازت ہے۔

یمن کے ایک شخص ابوشاہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا:

اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ (خطبہ) لکھ دیجیے تو آپ نے فرمایا:

((اكْتُبُوا لِأَبِي شَاءٍ))

’’ ابوشاہ کے لیے (یہ خطبہ) لکھ دو۔“

(صحيح البخاري، كتاب فى اللقطة، باب كيف تصرف لقطة اهل مكة، رقم:2434)

سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب نبی میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ آپ ﷺ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں، سوائے عبد اللہ بن عمروؓ کے ، کیونکہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔

(صحيح البخاري، كتاب العلم ، باب كتابة العلم، رقم: 113)

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنتا اسے لکھ لیا کرتا تھا تا کہ اسے حفظ کرلوں ۔ مجھے قریشیوں نے منع کر دیا کہ تو ہر بات لکھ لیتا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ ایک انسان ہیں غصے اور خوشی ( دونوں حالتوں ) میں گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے لکھنا موقوف کر دیا۔ جب یہ بات رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی تو آپ نے اپنے ذہن مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

أكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلا حَقٌّ

لکھا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس سے سوائے حق کے اور کچھ نکلتا ہی نہیں۔‘‘

(أبو داود، كتاب العلم ، باب كتابة العلم، رقم: 3646 وسنده صحيح)

ابوقبیل تابعیؒ نے فرمایا :

ہم عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کے پاس موجود تھے کہ ان سے پوچھا گیا :

دو شہروں میں سے کون سا شہر سب سے پہلے فتح ہو گا:

قسطنطنیه یا رومیہ؟ تو عبد اللہؓ نے حلقوں والا صندوق منگوایا، پھر اس سے ایک کتاب نکالی اور فرمایا:

ہم رسول اللہؒ کے پاس لکھ رہے تھے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ دو شہروں میں سے کون سا شہر پہلے فتح ہوگا :

قسطنطنیہ یا رومیہ؟

تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”پہلے ہر قل کا شہر، یعنی قسطنطنیہ فتح ہوگا۔“

(مسند أحمد 2/176 وسنده صحيح)

یزید بن شریکؒ کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا:

ہم نے نبی ﷺ سے کچھ نہیں لکھا، سوائے قرآن کے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔

(صحيح البخاري، كتاب الجزية ، باب اثم من عاهد ثم عذر ، رقم: 3179)

سید نا علیؓ کے اس فرمان کا مطلب ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے صرف یہی دو چیزیں قلمبند کی ہیں۔ ایک قرآن مجید اور دوسرے وہ مسائل جو اس صحیفے میں ہیں۔ آپ سے پوچھا گیا:

اس صحیفے میں کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:

دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

(صحيح البخاري: 111)

معبد بن ہلالؒ کہتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالکؓ سے جب ہم زیادہ اصرار کرتے تو وہ اپنے پاس موجود رجسٹر ہمارے لیے نکال لیتے اور فرماتے:

یہ وہ (احادیث) ہیں جو میں نے نبی ﷺ سے سنی ہیں، انھیں لکھا اور آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تھا۔

(المستدرك للحاكم 3/573 وسنده حسن)

تنبیہ:

[حافظ ذہبیؒ کا اس روایت کو منکر قرار دینا بغیر دلیل کے ہے۔ عقبہ ابن ابی حکیم صدوق وحسن الحدیث ہیں اور ایسے راوی کا تفرد قطعاً مضر نہیں ، واللہ اعلم ۔ ندیم]

امام زہریؒ فرماتے ہیں:

یہ نسخہ اس کتاب کا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات سے پہلے) صدقے کے بارے میں لکھوایا تھا اور یہ آل عمر بن خطاب کے پاس محفوظ تھی۔ نیز فرماتے ہیں:

اسے مجھے سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ نے پڑھوایا اور میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا اور یہی وہ تحریر ہے جسے عمر بن عبد العزیز نے عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر اور سالم بن عبد اللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا۔

(أبو داود، كتاب الزكاة، باب في زكاة السائمة، رقم: 1570 ؛ ابن ماجه ، رقم: 1798 وسنده صحيح)

ان جملہ روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مسعود میں بھی احادیث لکھی جاتی تھیں۔ آپ خود بھی حکم فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرامؓ بھی اپنے ذوق وشوق سے احادیث مبارکہ لکھا کرتے تھے۔

کتابت حدیث عہد صحابہ میں

نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا، صحابہ کرامؓ نبی کریم ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد احادیث مبارکہ لکھا اور لکھوایا کرتے تھے، چنانچہ:

سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ان کے لیے یہ کتاب لکھ کر انھیں بحرین کی طرف بھیجا:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: هَذِهِ فَرِيْضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللهِ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ وَ الَّتِي أَمَرَ اللهُ بِهَا رَسُولُهُ.

(صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب زكاة، رقم: 1454)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیا اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔

ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہم عتبہ بن فرقد کے ساتھ آذر بائیجان یا شام میں تھے کہ سیدنا عمرؓ کی کتاب ہمارے پاس پہنچی (جس میں یہ تحریر تھا:)

اما بعد ! بے شک رسول اللہ ﷺ نے ریشم سے (مردوں کو) منع فرمایا ہے، سوائے اتنے (یعنی) دو انگلیوں کے (برابر)۔

(صحیح مسلم، کتاب اللباس ، باب تحرير …. رقم :2069)

سیدنا مغیرہؓ کے کا تب وراد کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کی طرف لکھا کہ مجھے وہ (حدیثیں) لکھ کر بھیجیں جو آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہیں ، تو مغیرہؓ نے ان کی طرف لکھ بھیجا: بے شک اللہ کے نبی ﷺ ہر نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے:

(لاَ إِلَهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَ لَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِ مِنْكَ الْجَدُّ)

اور سیدنا مغیرہؓ نے ان کی طرف یہ بھی لکھا کہ نبی ﷺ قیل و قال (فضول بحث) اور کثرت سوال اور مال کو ضائع کرنے سے منع فرماتے ، اور آپ ماؤں کی نافرمانی سے ، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور دوسروں کا حق نہ دینے اور بغیر کسی ضرورت مانگنے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے۔

(صحيح البخاري، كتاب الاعتصام باب ما يكره من كثرة السوال…… رقم:7292)

بشیر بن نہیک کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ سے جو کچھ سنتا لکھ لیتا تھا، پھر جب میں نے ان سے رخصت ہونے کا ارادہ کیا تو اپنی کتاب لے کر ان کے پاس گیا اور انھیں وہ پڑھ کر سنائی اور کہا:

میں نے آپ سے جو سنا ہے وہ یہ ہے؟ انہوں نے فرمایا:

جی ہاں۔

(مسند الدارمي رقم 500 مصنف ابن أبي شيبة 13/463 وسنده صحيح)

معن بن عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میرے سامنے عبد الرحمٰن بن عبد اللہ نے ایک کتاب رکھی اور قسم کھا کر کہا :

یہ ان کے والد عبد اللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔

(مصنف ابن أبي شيبة 13/462 وسنده صحيح)

کتابت حدیث عہد تابعین میں

صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین عظام کا دور آتا اور اس دور میں کتابت و تدوین حدیث پر بڑے وسیع پیمانے پر کام ہوا ہے، احادیث مبارکہ کو اس کثرت سے لکھا گیا ہے کہ اگر اسے بیان کیا جائے تو طوالت کا خوف دامن گیر ہے، لہٰذا ہم صرف چند حوالے درج کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔

عبد اللہ بن دینارؒ کہتے ہیں :

خلیفہ عمر بن عبد العزیزؒ نے اہل مدینہ کی طرف لکھ کر حکم بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں تلاش کر کے لکھ لو کیونکہ مجھے علم اور اہل علم کے ختم ہونے کا ڈر ہے۔

(مسند الدارمي ، رقم:494، وسنده صحيح)

سلیمان بن موسیٰ سے مروی ہے کہ انھوں نے دیکھا :

نافع مولیٰ ابن عمر اپنا علم لکھواتے اور یہ ان کے سامنے لکھا جاتا تھا۔

(مسند الدارمي، رقم: 513 وسنده صحيح)

امام ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ ابو قلابہؒ نے میرے لیے اپنی کتابوں کی وصیت کی تو میں یہ کتابیں شام سے لایا ان کے کرائے پر دس سے زیادہ درہم ادا کیے تھے۔

(طبقات ابن سعد 9/250 وسنده صحيح)

موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کریب نے ابن عباسؓ کی کتابوں میں سے ایک اونٹ کے وزن کے برابر کتابیں رکھیں، پھر جب علی بن عبد اللہ بن عباس کو کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو وہ لکھ بھیجتے کہ فلاں کتاب میری طرف بھیج دیں تو وہ اس کتاب کو لکھ کر ایک نسخہ ان کی طرف بھیج دیتے تھے۔

(أيضًا، 7/289 وسنده صحيح)

صالح بن کیسان کہتے ہیں کہ امام زہری نے (حدیث) لکھی اور میں نے نہیں لکھی تو وہ کامیاب ہو گئے اور میں ضائع ہو گیا۔

(تقييد العلم للخطيب، ص107،160 وسنده حسن)

اسی طرح صحیفہ ہمام بن منبہ جو آج بھی علمی دنیا میں مشہور ہے ، جس میں ڈیڑھ سو کے قریب احادیث ہیں اور کئی دفعہ اردو ترجمہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے، یہ بھی سیدنا ابو ہریرہؓ کے شاگرد امام ہمام بن منبہ تابعی کا جمع کردہ ہے۔

امام محمد بن اسحاق کی کتاب السیرۃ بھی عہد تابعین ہی کی تالیف کردہ ہے اور یہ کتاب بھی کئی بار چھپ چکی ہے اور علمی دنیا میں مشہور ہے۔

دور تابعین کے بعد اگلا دور تبع تابعین کا ہے اس میں پہلے سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر کتابت حدیث پر کام ہوا ہے ۔ موطا امام مالک ، کتاب الزہد از ابن مبارک کتاب الزهد از امام وکیع بن جراح کتاب المناسک از سعید بن ابی عروبه، کتاب السیر از محمد بن اسحاق اور کتاب الدعا از محمد بن فضیل وغیرہ اسی دور کی مدون شدہ ہیں۔ پھر اس اس کے بعد تو کتابت و تدوین حدیث پر اس قدر کام ہوا کہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔ مصنف عبدالرزاق مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند ابن ابی شیبہ لکھی گئیں ، اسی طرح مسند احمد اور مسند ابی داود الطیالسی اور دیگر بے شمار کتب منصہ شہود پر آئیں۔

خلاصہ یہ کہ حدیث مبارکہ کسی دور میں بھی بغیر کتابت کے نہیں چھوڑی گئی۔ نبی کریم ﷺ کے دور مسعود میں جو اس کی کتابت و تدوین تھی وہ ایک خاص اسلوب میں تھی۔ پھر صحابہ کرام اور تابعین کے ابتدائی دور میں اور زیادہ زور پکڑ گئی اور تابعین کے آخری دور میں تو اتنے عروج پر تھی کہ ہر طرف محدثین ہی نظر آتے تھے، جدھر دیکھو حدیث کا درس ہو رہا ہے۔ بعد ازاں تبع تابعین اور پھر ائمہ محدثین کے دور کے تو کیا ہی کہنے ، ہر طرف قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔

اب بھی اگر کوئی یہی رٹ لگائے پھرے کہ حدیث تو اڑھائی سو سال بعد لکھی گئی ہے، لہٰذا یہ حجت شرعیہ نہیں تو اسے بس یہی کہا جا سکتا ہے:

گر آنکھیں ہیں بند تو دن بھی رات ہے
بھلا اس میں قصور کیا ہے سورج کا

اللہ تعالیٰ نے جن ذرائع سے قرآن کی حفاظت کی ہے انہی ذرائع سے قرآن کے بیان، یعنی حدیث مبارک کی حفاظت کی ہے۔ حفاظت قرآن بذریعہ حفظ ہوئی تو حفاظت حدیث بھی بذریعہ حفظ ہوئی اور اگر حفاظت قرآن بذریعہ کتابت ہوئی تو حفاظت حدیث بھی بذریعہ کتابت ہوئی۔ ایسا کیوں؟

اس لیے کہ دونوں وحی ہیں، دونوں منزل من اللہ ہیں، قرآن کلام اللہ ہے تو حدیث کلام رسول اللہ ہے، قرآن کتاب اللہ ہے تو حدیث بیان کتاب اللہ ہے۔ ایک ہی حقیقت کے دو جلوے اور ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ قرآن کریم متن ہے اور حدیث اس کی شرح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کی شرح کے پیش نظر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا، اگر چہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے ایک علیحدہ چیز ہے مگر اپنی حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے، لہٰذا دونوں کی اتباع واجب ہے۔ آج دونوں اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے ۔

ان شاء اللہ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے