حضور نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی
حضور نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی متعدد شادیاں محض خواہشات کی بنا پر نہ تھیں بلکہ ان کے پیچھے مختلف حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ تھیں۔ یہ شادیاں معاشرتی، معاشی اور دینی ضروریات کی تکمیل کے لیے تھیں۔
➊ پہلے ازدواج کا واقعہ: محبت اور وفاداری
حضور ﷺ نے اپنی زندگی کے بہترین 25 سے 50 سال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گزارے، جو کہ ایک 40 سالہ بیوہ خاتون تھیں۔ باوجود اس کے کہ آپ ﷺ کی جوانی تھی اور معاشرتی و معاشی لحاظ سے مزید شادیوں کی کوئی ممانعت نہ تھی، آپ ﷺ نے اپنی ساری محبت اور وفاداری انہیں کے ساتھ نبھائی۔
➋ پچاس سال کے بعد کی شادیاں: بیوگان کی کفالت
پچاس سال کی عمر کے بعد کی گئی شادیوں میں زیادہ تر بیوہ خواتین شامل تھیں۔ ان میں سے اکثر خواتین عمر رسیدہ تھیں اور جنسی لحاظ سے زیادہ رغبت نہیں رکھتی تھیں۔ اگر حضور ﷺ کی نیت خواہشات پر مبنی ہوتی تو آپ ﷺ جوان اور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرتے، حالانکہ آپ ﷺ کو اختیار تھا اور لوگوں کے دلوں پر حکومت بھی تھی۔
➌ سیاسی و قبائلی تعلقات کا قیام
حضور ﷺ نے مختلف قبائل کی خواتین سے شادی کی، جس کا مقصد ان قبائل سے تعلقات کو مضبوط کرنا تھا۔ یہ شادیوں نے دشمن قبائل کے ساتھ جنگی صورتحال کو کم کرنے میں مدد دی۔ مثال کے طور پر:
- حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد ان کے قبیلہ بنو مصطلق کے بہت سے افراد آزاد ہو کر مسلمان ہوگئے۔
- حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، جو خیبر کی جنگ میں قید ہو کر آئیں، ان سے شادی کے ذریعے یہود کے درمیان اسلام کے اچھے اثرات پھیلے۔
➍ معاشرتی بہبود: بیوگان کی کفالت
جنگوں کے دوران بہت سے مسلمان شہید ہوئے، جس کے نتیجے میں کئی خواتین بیوہ ہو گئیں۔ ان کے لیے سہارے کا انتظام حضور ﷺ نے اپنی شادیوں کے ذریعے کیا۔
- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا، جو پچاس سال کی عمر کی بیوہ تھیں، ان سے نکاح کرکے حضور ﷺ نے انہیں مشرکین کی اذیت سے بچایا۔
- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، جن کے شوہر جنگ احد میں شہید ہوئے، ان سے نکاح کرکے حضور ﷺ نے ان کے بچوں سمیت انہیں سہارے فراہم کیے۔
➎ تعلیم و تربیت کے ذرائع
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کی حکمت یہ تھی کہ ایک کم عمر خاتون اسلامی ماحول میں پروان چڑھ سکے اور بعد میں اسلامی تعلیمات کا وسیع علم پھیلانے میں اہم کردار ادا کرے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے 2210 احادیث مروی ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
➏ جاہلی رسم و رواج کا خاتمہ
حضور ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض) کی مطلقہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کرکے جاہلی تصور کو ختم کیا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔
➐ قبائلی دشمنیوں کا خاتمہ
آپ ﷺ کی مختلف قبائل کی خواتین سے شادی کے ذریعے قبائلی عصبیتوں کا قلع قمع ہوا۔ جیسے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ان کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی دشمنی میں کمی آئی۔
خلاصہ
حضور ﷺ کی شادیاں ذاتی مفادات یا خواہشات کی بنا پر نہ تھیں، بلکہ ان کے پیچھے کئی حکمتیں اور مقاصد تھے۔ آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی کے ہر پہلو میں امت مسلمہ کے لیے راہنمائی اور سیکھنے کا موقع ہے۔ ان شادیوں کے ذریعے نہ صرف بیوگان اور یتیموں کو سہارے فراہم کیے گئے، بلکہ اسلامی معاشرتی اقدار کی ترویج بھی کی گئی۔