حضرت عمر کا فاطمہ رض کے بطن پر مکا مار کر حمل ساقط کرنے کا واقعہ
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن پاک پر مکا مار کر حمل ساقط کرنے کی داستان جھوٹی ہے۔ اہل سنت کی کتابوں میں اس کا ذکر تک نہیں، البتہ کتاب سلیم بن قیس میں مذکور ہے ۔ اس واقعہ سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ صحابہ کرام نعوزباللہ آل بیت سے دشمنی رکھتے تھے ۔

جبکہ سلیم بن قیس ہلالی کی طرف منسوب کتاب ”کتاب سلیم بن قیس“ جو "کتاب اسقیفہ” کے نام سے موسوم ہے، جھوٹی کتاب ہے۔ اس میں مذکور باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔

① صاحب کتاب سلیم بن قیس مجہول“ ہے، اہل سنت اور متقدمین شیعہ کی کتب رجال میں اس کی توثیق مذکور نہیں ۔ متاخرین شیعہ کی توثیق کا کوئی اعتبار نہیں !

شیعہ عالم ابن الغضائری نے لکھا ہے:

كَانَ أَصْحَابُنَا يَقُولُونَ : إِنَّ سُلَيْمًا لَّا يُعْرَفُ، وَلَا ذُكِرَ فِي خَبَرٍ، وَالكِتَابُ مَوْضُوع لَا مِرْيَةَ فِيهِ، وَعَلَى ذَلِكَ عَلَامَاتٌ فِيْهِ تَدُلُّ عَلَى مَا ذَكَرْنَاهُ، مِنْهَا مَا ذُكِرَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعَظَ أَبَاهُ عِنْدَ مَوْتِهِ، وَمِنْهَا أَنَّ الْأَئِمَّةَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ، وَغَيْرُ ذَلِكَ .

”ہمارے اصحاب کہتے تھے : سلیم "مجہول” ہے، اس کا کسی حدیث میں ذکر تک نہیں ملتا، اس کی کتاب موضوع (جھوٹی) اور نا قابل التفات ہے۔ اس میں کچھ ایسی باتیں ہیں، جو اس کے جھوٹا ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ مثلاً محمد بن ابو بکر نے اپنے والد کو بہ وقت وفات وعظ ونصیحت کی، ائمہ تیرہ ہیں، وغیرہ ۔

(الرجال : 5/1)

② کتاب کا راوی ابان بن ابو عیاش ضعیف و متروک ہے۔ ابن الغضائری نے لکھا ہے:

ضَعِيفٌ، لَّا يُلْتَفَتُ إِلَيْهِ، وَيَنْسِبُ أَصْحَابُنَا وَضْعَ كِتَابِ سُلَيْم بن قَيْسٍ إِلَيْهِ .

”ضعیف اور نا قابل التفات ہے ۔ ہمارے اصحاب کے مطابق ”کتاب سلیم بن قیس اس کی گھڑی ہوئی ہے۔

(الرجال : 4/1)

شیعہ کتب رجال میں ابان بن ابو عیاش کی توثیق ثابت نہیں ، جب کہ اس کتاب کا دار ومدار اسی پر ہے۔

تنبیه:

ابو العباس احمد بن علی نجاشی ( ۴۶۰ ھ ) نے اس کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔

حَمَّادُ بْنُ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ .

(رجال النجاشي :5/1)

دراصل اس سند میں ابراہیم بن عمر یمانی اور سلیم بن قیس کے درمیان ابان بن ابو عیاش کا واسطہ گر گیا ہے۔ ابراہیم بن عمر کا سلیم بن قیس سے روایت کرنا تعجب خیز ہے! دوسرے یہ کہ ابراہیم بن عمر شیعہ کتب رجال کے مطابق مختلف فیہ ہے۔ نجاشی نے ثقہ کہا ہے جب کہ ابن الغضائری نے ”ضعیف“۔

تیسری اہم بات یہ کہ اس سند میں محمد بن علی صیرفی ضعیف و کذاب ہے۔ شیعہ عالم سید خوئی نے لکھا ہے:

الصَّحِيحُ أَنَّهُ لَا طَرِيقَ لَنَا إِلَى كِتَابِ سُلَيْمٍ بْنِ قَيْسٍ الْمَرْوِي بِطَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ عَنْهُ، وَذَلِكَ فَإِنَّ فِي الطَّرِيقِ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ الصَّيْرَفِي أَبَا سَمِينَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ كَذَّابٌ .

درست یہی ہے کہ ہمارے پاس حماد بن عیسی عن ابراہیم بن عمر عن قیس سند سے مروی ” کتاب سلیم بن قیس کا کوئی ثبوت نہیں، کیوں کہ اس سند میں محمد بن علی صیرفی ابوسمینہ ضعیف وکذاب ہے۔“

(معجم رجال الحديث : 235/9)

نجاشی نے محمد بن علی صیرفی ابو سمینہ کے بارے میں لکھا ہے:

ضَعِيفٌ جدًا، فَاسِدُ الاعْتِقَادِ، لَا يُعْتَمَدُ فِي شَيْءٍ، وَكَانَ وَرَدَ قُمْ» وَقَدِ اشْتُهِرَ بِالْكَذِبِ بِالْكُوفَةِ .

سخت ”ضعیف“ اور برے عقیدے والا ہے، کسی بھی معاملہ میں معتبر نہیں ۔ ” قم میں آیا تھا اور کوفہ میں جھوٹا مشہور تھا۔“

(رجال النجاشي : 234/1)

ثابت ہوا کہ کتاب سلیم بن قیس جھوٹی ہے۔ اس کی ایک ہی سند ہے۔

③  کتاب جھوٹی ہے۔ ابن الغضائری نے لکھا ہے:

فِي الْكِتَابِ مَنَاكِيرُ مُشْتَهِرَةٌ، وَمَا أَظُنُّهُ إِلَّا مَوْضُوعًا .

اس کتاب میں کئی مشہور منکر باتیں ہیں، میرے مطابق یہ جھوٹی ہے ۔“

(الرجال : 4/8)

ابن داؤد حلی (۷۰۷ھ) نے اس کتاب کو موضوع (جھوٹی)“ قرار دیا ہے۔

(رجال ابن داؤد ، ص 242)

شیخ مفید شیعہ نے لکھا ہے:

إِنَّ هَذَا الْكِتَابَ غَيْرُ مَوْتُوقٍ بِهِ، وَلَا يَجُوزُ الْعَمَلُ عَلَى أَكْثَرِهِ، وَقَدْ حَصَلَ فِيْهِ تَخْلِيطُ وَتَدْلِيسٌ فَيَنْبَغِي لِلْمُتَدَيِّنِ أَنْ يَجْتَنِبَ الْعَمَلَ بِكُلِّ مَا فِيهِ .

یہ نا قابل اعتماد کتاب ہے۔ اس کے بیشتر حصے پر عمل جائز نہیں، اس میں تخلیط و تدلیس ہوئی ہے، لہذا ایک دین دار اس پر عمل سے مجتنب رہے۔“

(تصحيح العقائد، ص 72)

④ سلیم بن قیس ہلالی نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔

شیخ الاسلام ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

بعض روافض کہتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا بطن شق کر کے حمل ضائع کر دیا تھا اور گھر کی چھت گرا دی تھی۔ یہ اور ان جیسی دیگر کذب بیانیوں کا بطلان معمولی علم اور سوجھ بوجھ رکھنے والے پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔ روافض کا وطیرہ ہے کہ وہ متواتر و معلوم چیزوں کا بڑی آسانی سے انکار کر جاتے ہیں اور معدوم اور بے حقیقت چیزوں کو ببانگ دہل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہیں : ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ العَنْكَبُوتُ : ٦٨) بھلا اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے، جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو ٹھکرادے؟ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور حق کے انکاری ہیں ۔“

(منهاج السنة النبوية : 493/4)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پیٹ میں مکا مار کر حمل ساقط کرنے کا کوئی ثبوت نہیں اور جس کتاب سے یہ روایت پیش کی جاتی ہے، اس کا اپنا وجود محتاج دلیل ہے!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1