ملحدین کا اعتراض:
حضرت عثمانؓ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے کہ:
"جب تمہارا زید بن ثابتؓ سے قرآن کے کسی لفظ کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ قرآن اُن کی زبان میں نازل ہوا ہے”؟
معترضین کا کہنا ہے کہ اگر حضرت عثمانؓ نے "سات حروف” باقی رکھے تھے، تو پھر یہ فرمان کیوں دیا گیا؟
جواب:
حضرت عثمانؓ کے دور میں مرتب کردہ مصاحفِ عثمانیہ میں "سات حروف” کی تمام ممکنہ جزئیات شامل کی گئیں جو رسمِ عثمانی کے تحت لکھی جا سکتی تھیں۔ ان میں وہ تمام قراءتیں موجود تھیں جو عرضۂ اخیرہ (رسول اللہ ﷺ کے جبرائیلؑ کے ساتھ قرآن کے آخری دورِ قراءت) میں باقی رکھی گئی تھیں۔
مصاحف کو اعراب اور نقطوں سے خالی رکھا گیا تاکہ سات حروف کی قراءتیں ان میں سما سکیں۔ البتہ، ہر مصحف میں "ساتوں حروف” کی تمام تفصیلات جمع نہیں کی گئیں، بلکہ وہ تفصیلات ان مصاحف میں تقسیم کی گئیں جنہیں مختلف علاقوں کے لیے بھیجا گیا۔
مثلاً:
- لفظ {وَوَصّٰی} بعض مصاحف (مدنی و شامی) میں موجود نہیں، لیکن دیگر میں موجود ہے۔
- سورۂ توبہ کی آیت {تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا} صرف مکی مصحف میں ہے، جبکہ دیگر میں {تَجْرِي تَحْتَهَا} درج ہے۔
- ایسے الفاظ جیسے {فَتَبَيَّنُوا}، {هَيْتَ لَكَ}، {أُفٍّ}، جن کا رسم تمام قراءتوں کا متحمل تھا، انہیں تمام مصاحف میں شامل کیا گیا۔
حضرت عثمانؓ کے فرمان کی وضاحت
حضرت عثمانؓ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ چھ حروف ختم کر دیے گئے اور صرف لغتِ قریش باقی رکھی گئی۔ بلکہ:
- اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی کتابت کے دوران اگر رسم الخط میں کوئی اختلاف پیش آئے تو قریش کے رسم الخط کو ترجیح دی جائے۔
- ایک مثال سورۂ بقرہ کی آیت {أَن يَأْتِيَكُمُ ٱلتَّابُوتُ…﴿٢٤٨﴾} سے لی جا سکتی ہے۔
اس آیت کے کتابت کے طریقے میں اختلاف ہوا کہ لفظ التابوت کو لمبی "ت” کے ساتھ لکھا جائے یا گول "ة” کے ساتھ۔
حضرت عثمانؓ نے فیصلہ دیا کہ اسے التابوت لکھا جائے کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
خلاصہ
حضرت عثمانؓ کے اس فرمان کا مقصد صرف رسم الخط کے اختلاف کو ختم کرنا تھا تاکہ مصاحف میں ایک یکسانیت رہے۔ ان کا ارادہ ہرگز یہ نہیں تھا کہ سات حروف کو ختم کر کے صرف لغتِ قریش باقی رکھی جائے۔
چند دلائل:
1. مصاحفِ عثمانیہ کی تیاری کا بنیادی اصول
مصاحفِ عثمانیہ کی تیاری حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صحیفوں کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ ان صحیفوں میں "سات حروف” کی وہ تمام جزئیات موجود تھیں جو تواتر سے ثابت اور عرضۂ اخیرہ میں باقی تھیں۔
2. حروف کی منسوخی کا کوئی ثبوت موجود نہیں
کوئی صحیح یا ضعیف روایت یہ ثابت نہیں کرتی کہ حضرت عثمانؓ نے کاتبین کو حکم دیا ہو کہ وہ صرف ایک حرف پر اکتفا کریں اور دیگر چھ حروف کو ختم کر دیں۔
3. صحابہ کرامؓ کا اجماع
حضرت عثمانؓ کے دور میں 12 ہزار سے زیادہ صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سب اس بات پر راضی ہو جاتے کہ قرآن سے تواتر سے ثابت شدہ "حروف” کو ختم کر دیا جائے۔
حضرت عثمانؓ نے وہی حکمت عملی اختیار کی جو اختلاف کو ختم کرنے اور امت کو متحد کرنے کے لیے ضروری تھی۔
- انہوں نے صرف شاذ قراءتوں کو چھوڑا جو ابتدائی دور میں رخصت کے طور پر دی گئی تھیں، لیکن عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں۔
4. لغتِ قریش تک محدود ہونے کا دعویٰ غلط ہے
اگر حضرت عثمانؓ نے صرف لغتِ قریش کو باقی رکھا ہوتا تو قرآنِ کریم میں لغتِ قریش کے علاوہ دیگر لغات کے الفاظ نہ ہوتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں دیگر لغات کے کئی الفاظ موجود ہیں، جیسے:
- لغتِ ہوازن
- لغتِ تمیم
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ میں سات حروف کی تمام جزئیات شامل کی گئیں جو تواتر سے ثابت تھیں۔
علمائے امت کی آراء
1. جمہور علما کی رائے
جمہور علما کا ماننا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے "سات حروف” کو ختم نہیں کیا بلکہ انہیں محفوظ کر لیا۔
- علامہ ابن حزم نے "الفصل فی الملل” میں بیان کیا۔
- مولانا عبد الحق حقانی نے "مقدمہ تفسیر حقانی” میں اس کی وضاحت کی۔
- علامہ زرقانی نے "مناہل العرفان” میں لکھا کہ حضرت عثمانؓ نے ایسا رسم الخط منتخب کیا جو تمام قراءتوں کے مطابق پڑھا جا سکے۔
2. علامہ ابن الجزری
علامہ ابن الجزری کہتے ہیں:
"فقہائے قراء اور متکلمین کا اجماع ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ سات حروف پر مشتمل تھے”۔
(النشر فی القراءات العشر، جلد اول، صفحہ 31)
3. دیگر علما کی آراء
- علامہ بدر الدین عینی نے امام ابوالحسن اشعری کے حوالے سے کہا: "سات حروف ہماری موجودہ قراءت میں موجود ہیں”۔ (عمدۃ القاری، جلد 12، صفحہ 258)
- علامہ زرکشی نے قاضی ابوبکر کا قول نقل کیا: "سات حروف رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں، اور حضرت عثمانؓ نے انہیں مصحف میں محفوظ رکھا”۔ (البرہان فی علوم القرآن، جلد اول، صفحہ 151)
- علامہ انور شاہ کشمیری نے کہا کہ علامہ ابن جریر طبری "سات حروف” کے صحیح مفہوم کو نہیں سمجھ سکے، اور ان کا یہ کہنا کہ "حضرت عثمانؓ نے سات حروف ختم کر دیے”، درست نہیں۔ (فیض الباری، جلد سوم، صفحہ 321-322)
4. علامہ زاہد الکوثری
علامہ زاہد الکوثری نے ابن جریر کی رائے کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ:
"یہ تصور کہ قرآن اب صرف ایک حرف پر باقی ہے، خطرناک اور ناقابل قبول ہے”۔
(مقالات کوثری، صفحہ 21)
خلاصہ
حضرت عثمانؓ کا اقدام "سات حروف” کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ ان تمام حروف کو اس انداز میں محفوظ کرنا تھا کہ امت اختلاف سے بچ سکے۔ انہوں نے ایسے رسم الخط کا انتخاب کیا جو تمام متواتر قراءتوں کا متحمل ہو۔