حضرت ابو ہریرہؓ پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

حضرت ابو ہریرہؓ پر اعتراضات اور ان کے جوابات

اعتراض: کعب الاحبارؒ کا کردار اور ان کے بارے میں شبہات

کعب الاحبارؒ کا تعارف

کعب احبارؒ (ابن مانع حمیری) یہودیوں کے ایک بڑے عالم تھے اور اہل کتاب کی کتب کا گہرا علم رکھتے تھے۔ یمن کے علاقے میں پیدا ہوئے اور خلافت فاروقیؓ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں مدینہ آئے اور پھر شام ہجرت کی، جہاں 32 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ (طبقات ابن سعد)

علمائے امت کی رائے

  • امام بخاریؒ، حافظ ذہبیؒ اور امام نوویؒ جیسے اکابرین نے کعب احبارؒ کی علمی حیثیت کی تعریف کی ہے۔
  • حافظ ابن کثیرؒ نے ذکر کیا کہ جلیل القدر صحابہ (حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، وغیرہ) نے ان سے روایت کی ہے۔
  • صحابہ کی ایک جماعت ان کے علم کی گواہ تھی، اور ان پر اسلام کے خلاف کسی سازش کا شبہ کبھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ (طبقات ابن سعد، جلد 7، ق 2، ص 156)

ایمان اور ثقاہت پر سوال؟

کعب احبارؒ نے اسلام لانے کے بعد صحابہ سے کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کی اور اہل کتاب کے علوم صحابہ کو منتقل کیے۔ اگرچہ بعض صحابہ نے ان کی بعض باتوں میں احتیاط برتی، لیکن ان کی دیانت داری پر اکثریتی علما کا اجماع ہے۔ (دفاع ابو ہریرہؓ، صفحہ 261)

اعتراض: حضرت ابو ہریرہؓ اور کعب الاحبارؒ کا تعلق

شاگردی کا الزام

یہ کہنا کہ حضرت ابو ہریرہؓ، کعب احبارؒ کے شاگرد تھے، صریحاً غلط ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ صحابی ہیں، جبکہ کعب احبارؒ تابعی تھے۔ تابعی کسی صحابی کا استاد نہیں ہو سکتا۔

حقیقت:
حضرت ابو ہریرہؓ نے کعب احبارؒ سے بعض اسرائیلی روایات سنیں، جن کا تعلق زیادہ تر اقوام سابقہ کے قصص سے تھا، اور ان روایات کو صحابہ و تابعین کے سامنے بیان کیا۔

گڈمڈ ہونے کا شبہ

حضرت بشیر بن سعدؓ نے فرمایا کہ بعض لوگ حضرت ابو ہریرہؓ کی مجالس میں شامل ہوتے اور رسول اللہﷺ اور کعب احبارؒ کی روایات کو گڈمڈ کر دیتے۔ یہ غلطی ان سامعین کی تھی، نہ کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 1، صفحہ 436)

صحابہ کا رویہ

حضرت ابو ہریرہؓ کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کی حدیث کو واضح انداز میں روایت کرتے تھے۔ کعب احبارؒ سے منقول قصے و واقعات کو کبھی حضورﷺ کے نام سے منسوب نہیں کیا۔ یہ بات احادیث میں موجود سخت ہدایت (کہ جو جھوٹ باندھے، وہ جہنم میں جائے گا) کے خلاف ہے۔ (صحیح بخاری)

اعتراض: اسرائیلی روایات کا احادیث میں شامل ہونا

اسرائیلی روایات کے بارے میں عمومی اصول

حافظ ابن کثیرؒ نے اسرائیلی روایات کو تین اقسام میں تقسیم کیا:

  • قرآن و سنت سے موافق روایات: یہ قابل قبول ہیں۔
  • قرآن و سنت سے متعارض روایات: یہ رد کر دی جاتی ہیں۔
  • قرآن و سنت کے بارے میں خاموش روایات: ان کے بارے میں توقف کا حکم ہے۔

(مقدمہ تفسیر ابن کثیر)

تفاسیر میں اسرائیلی روایات کیوں؟

مفسرین نے بعض اوقات یہ روایات قرآن کے اجمالی بیانات کی وضاحت کے لیے ذکر کیں۔ ان روایات کو بعد میں آنے والے محدثین اور نقادوں کے ذریعے پرکھا گیا، اور باطل اسرائیلیات کو مسترد کر دیا گیا۔ (مقدمہ معارف القرآن از مفتی تقی عثمانی)

کیا نقصان دہ ہیں؟

اسرائیلی روایات عوام کو گمراہ کر سکتی ہیں، لیکن اہل علم کے ہاں ان کے لیے کسوٹی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معتبر تفاسیر (جیسے المحرر الوجیز) اور کتب حدیث میں ان کی وضاحت موجود ہے۔

اعتراض: حضرت ابو ہریرہؓ اور اسرائیلیات کو احادیث میں شامل کرنے کا الزام

حضرت ابو ہریرہؓ پر یہ الزام کہ انہوں نے کعب احبارؒ کی روایات کو رسول اللہﷺ کی احادیث کے ساتھ ملا دیا، بالکل بے بنیاد ہے۔

  • صحابہ کی احتیاط: صحابہ کرامؓ نے ہر موقع پر روایات کو الگ الگ بیان کیا اور کبھی بھی اسرائیلیات کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا۔
  • محدثین کی وضاحت: بعد کے محدثین نے ان روایات کی چھان بین کر کے درست اور غلط میں واضح فرق کیا۔
  • عوام کی غلط فہمی: اگر حضرت ابو ہریرہؓ کی روایات کو کسی نے غلط منسوب کیا، تو اس کا قصور وار خود راوی ہے، نہ کہ حضرت ابو ہریرہؓ۔

مثال: جنت کے درخت کی حدیث

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث (مسند احمد) میں جنت کے ایک درخت کا ذکر ہے، جسے کعب احبارؒ نے سچائی کی گواہی دی۔ یہ حدیث متعدد صحابہ (حضرت ابو سعید خدریؓ، حضرت سہل بن سعدؓ) سے بھی مروی ہے، لہٰذا اسے اسرائیلیات میں شامل کرنا غلط ہے۔ (صحیح مسلم)

خلاصہ اور نتیجہ

  • کعب الاحبارؒ کی شخصیت: جلیل القدر تابعی اور علم اہل کتاب کے ماہر تھے۔ ان کی روایات کا استعمال عبرت اور تاریخی وضاحت کے لیے ہوتا تھا۔
  • حضرت ابو ہریرہؓ کا کردار: ایک جلیل القدر صحابی، جنہوں نے کبھی اسرائیلی روایات کو رسول اللہﷺ سے منسوب نہیں کیا۔
  • اسرائیلی روایات: ان کا استعمال ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، اور محدثین نے ہمیشہ قرآن و سنت کے مخالف روایات کو رد کیا ہے۔
  • اعتراضات کا جواب: تمام اعتراضات کم علمی اور تعصب پر مبنی ہیں، اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے