265۔ کیا حسد کوئی حقیقت ہے یا کوئی من گھڑت چیز ؟
جواب :
حسد ایک حقیقت ہے اور جو احادیث جان لینے کے باوجود اس کا اعتراف نہ کرے، وہ کافر ہے۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
«أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا ﴿٥٤﴾ »
”یا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔“ [النساء: 54]
«قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾ »
”تو کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“ [الفلق: 1-5]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
« العين حق »
”نظر حق ہے۔“ [صحيح البخاري 319/10 صحيح مسلم، رقم الحديث 2187]
267۔ حسد کیا ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو ایک نعمت سے نوازا ہے تو دوسرا شخص تمنا کرتا ہے کہ اس سے نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے، اس کو حسد کہتے ہیں۔
ابلیس نے ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے جو حسد کیا، وہ پہلا حسد تھا اور انسانوں کے درمیان پہلا معصیت کا کام قابیل کا اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾ »
”اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بےشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔“ [المائدة: 27]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله وقدره بالأنفس »
”اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے بعد کثرت اموات نظر سے ہوں گی۔‘‘ امام بخاری نے اسے ”التاریخ الکبیر“ 360/4 میں روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے کشف الأستار 403/3 رقم الحدیث 3052 میں نقل کیا ہے۔
حسد قیامت کے قائم ہونے تک امتوں کی بیماری ہے۔ حسد اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تقاطعوا ولا تباغضوا ولا تحاسدوا، وكونوا عباد الله إخوانا »
”تم قطع رحمی کرو نہ ایک دوسرے سے بغض کرو اور نہ حد کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جاو۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2559]
نیز آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«خير الناس ذو القلب المخموم، واللسان الصادق قيل: ما القلب المخموم؟ قال: هو التقي النقي لا إثم فيه ولا بعي ولا حسد قيل: فمن على أثره؟ قال: الذى يشنأ الدنيا ويجب الآخرة قيل: فمن على أثره؟ قال: مؤمن فى خلق حسن»
لوگوں میں سب سے بہتر مخموم دل اور سچی زبان والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: قلب مخموم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا پرہیزگار اور پاکیزہ دل ہے جس میں کوئی گناه، بغاوت اور حسد نہیں ہوتا۔ کہا گیا: کون اس کے اثر پر ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جو دنیا کو برا جانتا اور آخرت کو پسند کرتا ہے۔ کہا گیا: اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اخلاق والا مومن۔“دیکھیں ! صحيح الجامع، رقم الحديث [3291]
ابوعبیدہ نے ذکر کیا ہے کہ «النقي» سے مراد وہ ہے جس کے دل میں حسد اور کینہ نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4306]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
268۔ کیا حسد کے علاج کی کوئی دلیل ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا :
« أمرني النبى صلى الله عليه وسلم أو أمر أن نسترقي من العين »
”مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نظر سے دم کروانے کا حکم دیا۔“
[صحيح البخاري، كتاب الطب، باب رقية العين، رقم الحديث 5738 صحيح مسلم، رقم الحديث 2195]