حرم کا لقطہ
حرم مکہ کا لقطہ بھی وہی علم رکھتا ہے جو کسی دوسری جگہ کا، لہٰذا ایک سال تک اس کی پہچان کروائی جائے، اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ اس کا ہو جائے گا جس نے اسے اٹھایا تھا۔
ہمارے علم کے مطابق جمہور علما کا یہی موقف ہے۔ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ مکہ کا لقطہ اٹھانے سے ملکیت میں شامل نہیں ہو سکتا بلکہ اٹھانے والے کا فرض ہے کہ وہ عمر بھر اس کا اعلان کرتا رہے، کیونکہ فرمان نبوی ہے:
”اس کی گری ہوئی چیز اعلان کرنے والے کے سوا کسی کے لیے اٹھانا جائز نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2017]
یہ حکم مکہ کے ساتھ خاص ہے۔ اگر یہ عام حکم ہوتا جو مکہ اور غیر مکہ میں ایک ہی ہوتا تو پھر اس کی تخصیص کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اس قول کے مطابق جب انسان مکہ میں کوئی چیز گری ہوئی پائے تو یا تو ہمیشہ اس کا اعلان کرتا رہے۔ تا آنکہ اس کو اس کا مالک مل جائے یا گم شدہ اشیا کے ذمے داران تک اسے پہنچا دے اور ان تک پہنچا کر وہ خود بری الذمہ ہو جائے گا۔ حرم کے ارد گرد پائی جانے والی اشیا وصول کرنے کے لیے باقاعدہ تنخواہ پر لوگ مقرر ہیں جنھیں میرے خیال کے مطابق گم شدہ اموال کی حفاظت کی کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 8/245]