حرام اعمال پر ردعمل اور شرعی رہنمائی
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

کیا کسی ایسے قریبی یا دوست کی شکایت کی جا سکتی ہے جو حرام کا ارتکاب کرتا ہو، مثلاً شراب پینا وغیرہ جبکہ میں نے اس سے قبل اسے کئی بار نصیحت کی ؟ یا یہ اس کے حق میں رسوائی سمجھی جائے گی ؟ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ حق کے اظہار سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہوتا ہے ؟

جواب :

ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کسی بھی قسم کا کوئی حرام و ناجائز کام کرتے ہوئے دیکھے تو اسے نصیحت کرے اور اس کو اللہ کی نافرمانی میں سرکشی کرنے سے ڈرائے اور اس پر یہ بات واضح کر دے کہ گناہوں کی سزا اور ان کے اثرات دل، نفس جوارح، فرد اور معاشرے پر ایک جیسے ہوتے ہیں، شاید وہ بار بار نصیحت کی وجہ سے اپنے مذموم کردار سے باز آ جائے اور رشد و ہدایت کی طرف واپس لوٹ آئے اور اگر پند و نصائح کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو پھر ناصح کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے معصیت سے نکالنے کے لیے کوئی قریب ترین راستہ اپنائے۔ اس کا معاملہ ذمہ دار ایجنسیوں کے سامنے اٹھائے یا کسی ایسے شخص کو بتائے جس کی تعظیم اس کی نظر میں نصیحت کرنے والے سے زیادہ ہو۔ الغرض اسے ایسا قریب ترین راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ اپنا مقصود حاصل کر سکے، حتیٰ کہ اگر معاملہ اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے ذمہ داران حکو مت تک پہنچانا پڑے تاکہ وہ اسے اس کی حرکات سے روک سکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
[ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے