حدیث نبوی ﷺ پر مستشرقین کے اعتراضات کا تاریخی جائزہ

حدیث اور سنت کی حجیت

حدیث اور سنت کو ہمیشہ اسلامی قانون کا دوسرا بنیادی ماخذ تسلیم کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بعد سنت نبوی ﷺ کا درجہ غیر متنازعہ رہا ہے۔ اگرچہ فقہ اور اجتہاد میں مسلمانوں کے مختلف نظریات ہوسکتے ہیں، لیکن قرآن اور حدیث کی حجیت پر کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ کسی ماہر قانون یا اسلامی اسکالر نے سنت کی بنیادیت کو چیلنج نہیں کیا۔

مستشرقین کی کوششیں: حدیث کی حجیت پر سوالات

گزشتہ صدی میں کچھ غیر مسلم مستشرقین نے حدیث کی حجیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ ان کا ہدف مسلمانوں کے عقائد کو کمزور کرنا اور اسلامی تعلیمات کو نقصان پہنچانا تھا۔ ان تحریروں نے ان مسلمانوں کو متاثر کیا جو اسلامی تعلیمات کو براہ راست سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان مستشرقین کے مقاصد میں اسلام کے خلاف نفرت کو فروغ دینا شامل تھا، اور وہ اپنی زہریلی تحریروں کے ذریعے اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

مستشرقین کی تحقیق: تعصب اور جانبداری

ایک غیر جانبدار محقق حقائق کو انصاف کے ساتھ دیکھتا ہے، لیکن مستشرقین کی "تحقیقات” تعصب سے بھری ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں نام گولڈ زیہر (Goldziher) ہے، جس نے حدیث پر وسیع تحقیق کی۔ اس کی کتاب "دراسات محمدیہ” (1890) میں مسلمانوں کے خلاف متعدد اعتراضات پیش کیے گئے ہیں۔ دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ گولڈ زیہر کی تحریروں نے مستشرقین کے خیالات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں (ضیاء البنی، جلد ہفتم، صفحہ ۱۵)۔

مستشرقین نے مسلمانوں کے 1400 سالہ علمی کام کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے محدود اور غلط مفروضوں کو بنیاد بنایا۔ ان کی توجہ حدیث کے اصول اور تاریخی حقائق کو سمجھنے پر نہیں بلکہ اسلام پر تنقید کرنے پر مرکوز تھی۔

مستشرقین کے دوہرے معیارات

تعجب کی بات یہ ہے کہ مستشرقین اپنی مذہبی کتابوں کے ماخذ پر کوئی مضبوط دلیل فراہم نہیں کرتے۔ انجیل کے مصنفین کے بارے میں عیسائیوں کو خود علم نہیں کہ وہ کون تھے، اور وہ بس "الہام” کی بنیاد پر ان کتابوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جب بات اسلام پر آتی ہے تو ان کا تنقیدی رویہ انتہائی سخت ہوجاتا ہے۔

پروفیسر غلام احمد حریری کی گواہی

پروفیسر غلام احمد حریری لکھتے ہیں کہ انہوں نے مستشرقین کی کتب کا مطالعہ کیا اور کئی مستشرقین سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ مستشرقین کی اکثریت اسلام اور پیغمبر اکرم ﷺ کے خلاف شدید تعصب رکھتی ہے۔ پروفیسر ہٹی جیسے مستشرق بھی تعصب سے خالی نہیں تھے، اور جب ان سے سوال کیا گیا تو وہ واضح جواب دینے سے گریزاں رہے۔ غلام احمد حریری کا تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلام کو بدنام کرنا تھا۔

مستشرقین کی چالاکی

مستشرقین اپنی تحریروں میں زہر اس طرح چھپاتے ہیں کہ عام قاری کو فوراً اندازہ نہیں ہوتا۔ ان کی چالاکی نے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کو گمراہ کیا، خاص طور پر وہ نوجوان جو اسلامی تعلیمات کو براہ راست سمجھنے کے بجائے مستشرقین کی تحریروں کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی رائے

مولانا علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ مستشرقین نے قرآن، حدیث، اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ ایک خاص مقصد کے تحت کیا تاکہ اسلام کی منفی تصویر پیش کی جا سکے۔ انہوں نے اسلام کے اصولوں اور تاریخی حقائق کو مسخ کر کے ایک ایسا تصور پیش کرنے کی کوشش کی جو اسلامی عقائد کو کمزور کرے۔

مستشرقین کی فکری یلغار

مستشرقین نے مغربی فلسفوں کے ذریعے اسلامی دنیا پر فکری حملے کیے۔ ان فلسفوں میں حقیقت کم اور فرضی خیالات زیادہ تھے۔ نتیجتاً، مسلمانوں کا ایک طبقہ ان نظریات سے متاثر ہوکر اسلامی اقدار سے دور ہوتا چلا گیا۔

خلاصہ

مستشرقین نے اسلام، قرآن، اور حدیث کے خلاف منظم کوششیں کیں تاکہ مسلمانوں میں شک، الحاد، اور احساس کمتری پیدا کیا جا سکے۔ ان کی تحریروں نے اسلامی دنیا کے دینی اور فکری ماحول پر منفی اثر ڈالا، جس کا اثر آج تک دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چیلنج مسلمانوں کے لئے ایک بڑا فکری اور تہذیبی امتحان ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے