حدیث ما شاء اللہ و شئتَ: نبی کریم ﷺ کی تنبیہ اور آج کا شرک
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

یہ مضمون اس قرآنی اصول کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو "ند” (ہم پلہ، شریک) بنانا—even نیت اور تاویل کے ساتھ—شرک ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث، قرآن کی متعدد آیات، اور مشرکین عرب کے عقائد سے ثابت کیا گیا ہے کہ غیراللہ سے مدد مانگنا، وسیلے گھڑنا، اور کسی کو مشکل کشا یا فریاد رس سمجھنا، خواہ کتنے ہی شرعی لباس میں ہو، اصل میں وہی شرک ہے جس سے قرآن و سنت نے منع فرمایا ہے۔ مضمون میں بریلوی تاویلات کا رد اور مشرکین عرب و بریلوی عقائد کا تقابلی جائزہ بھی دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

 اللہ کے لیے "ند” بنانا کیا ہوتا ہے؟

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
"پس اللہ کے لیے شریک مت بناؤ، حالانکہ تم (خوب) جانتے ہو۔”

[سورۃ البقرۃ: 22]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے "أندادًا” کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جو "ندّ” کی جمع ہے۔
"ندّ” کا مطلب ہے:

◈ ہم پلہ،
◈ شریک،
◈ برابر سمجھا جانے والا۔

اس کا مفہوم صرف الوہیت میں شریک بنانے تک محدود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت، مشیت، عبادت اور صفات میں بھی کسی کو شریک ٹھہرانا "ندّ” بنانے میں آتا ہے۔

یہ انتباہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو عقیدے میں یہ کہتے ہیں کہ ہم غیر اللہ سے کچھ مانگتے تو ہیں، لیکن ان کو اللہ کے برابر نہیں سمجھتے—حالانکہ آیت صاف کہہ رہی ہے: جانتے ہوئے بھی کسی کو "ندّ” نہ بناؤ۔

اسی مفہوم کو سمجھانے کے لیے نبی کریم ﷺ نے بھی ایک موقع پر اسی لفظ "ند” کا استعمال فرمایا۔

حدیثِ نبوی ﷺ – شرک کی باریک شکل کی نشاندہی:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا؟ بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ”.

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:

 ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:

 "جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔”

 تو نبی ﷺ نے فرمایا:

 "کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک (ہم پلہ) بنا دیا؟

 بلکہ (یوں کہو) جو صرف اللہ چاہے۔”

حدیث کی تخریج و اسناد:

🔹 مسند احمد (1839، 3145)

✅ شیخ شعیب الارناؤوط: "إسناده صحيح على شرط مسلم”

🔹 صحیح ابن حبان (حدیث: 2990)

✅ اسناد صحیح اور ابن حبان کے معیار پر پوری

🔹 الأدب المفرد للبخاري (حدیث: 783)

✅ شیخ البانی: "إسناده حسن”

🔹 السلسلة الصحيحة للالبانی (حدیث: 139)

✅ فرمایا: "وإسناده صحيح، رجاله كلهم ثقات”

🔹 المعجم الكبير للطبراني (3/66، رقم 2681)

✅ متعدد طرق اور قابلِ قبول اسناد کے ساتھ روایت

درج بالا حدیث سے شرکیہ عقائد کے جواز میں پیش کردہ تاویلات کا رد

🔹 بریلوی حضرات جب اولیاء یا انبیاء علیہم السلام کو مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر اور فریاد رس کہتے ہیں، تو ان کے دفاع میں یہ تاویلات پیش کی جاتی ہیں:

🔸 "ہم انہیں ذاتی (بالذات) مؤثر نہیں مانتے، بلکہ اللہ کی عطا سے ہے”

🔸 "یہ اختیار محدود ہے، اللہ کی طرح لامحدود نہیں”

🔸 "یہ مستقل نہیں بلکہ غیر مستقل ہے، اللہ کے اذن سے ہے”

🔹 یعنی وہ کہتے ہیں کہ:
اگرچہ ہم غیراللہ سے مدد مانگتے ہیں، مگر انہیں اللہ کے برابر نہیں سمجھتے، بس عطائی سمجھ کر مانگتے ہیں۔

❗ لیکن غور کیجیے:

🔹 جس صحابی نے کہا "ما شاء اللہ وشئتَ”، وہ بھی رسول اللہ ﷺ کو:
عطائی، غیر مستقل، محدود ہی سمجھ کر کہہ رہا تھا۔

📌 پھر بھی نبی ﷺ نے ان کے الفاظ کو برداشت نہ فرمایا اور فوراً فرمایا:

"أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا؟”
"کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا؟”

🔵 اس سے ثابت ہوتا ہے:

🔹 شرک صرف اس وقت نہیں ہوتا جب کسی کو "اللہ جیسا” مانا جائے۔
🔹 بلکہ جب کسی کو اللہ کے علاوہ غیب سے مدد کرنے والا، تصرف کرنے والا، پکار سننے والا مانا جائے چاہے وہ کتنی مرضی شرائط و تاویلات کیساتھ ہی کیوں نہ ہو وہ شرک ہی رہتا ہے۔

📌 نبی ﷺ کی حدیث تمام بریلوی تاویلات کو باطل اور مردود قرار دے رہی ہے۔

 مشرکین عرب بھی اللہ کی ربوبیت، خالقیت اور قدرت کے منکر نہ تھے

قرآن نے کئی مقامات پر واضح کیا ہے کہ مشرکین عرب اللہ کی ربوبیت، خالقیت اور قدرت کے قائل تھے، لیکن پھر بھی وہ مشرک قرار پائے۔

🔹 سورۃ الزخرف: 87

"وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ”
"اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا، تو ضرور کہیں گے: اللہ نے۔”

🔹 سورۃ یونس: 31

"قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ… فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ”
"پوچھو کہ تمہیں آسمان و زمین سے کون رزق دیتا ہے… تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ۔”

🔹 سورۃ المؤمنون: 84–89
ان آیات میں اللہ نے تفصیل سے پوچھا کہ زمین و آسمان، حواس خمسہ، روح، سب کچھ کس کے اختیار میں ہے؟

اور بار بار جواب آیا: اللہ

🔵 تو سوال ہے:

🔹 اگر وہ سب کچھ اللہ کا مانتے تھے
🔹 نہ اولیاء کو خالق مانتے تھے
🔹 نہ بتوں کو رب یا رازق مانتے تھے

📌 پھر اللہ نے انہیں مشرک کیوں کہا؟

سورۃ الزمر کی روشنی میں مشرکین کا شرک

اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر میں مشرکین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ”
"ہم ان (بتوں) کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔”

 [سورۃ الزمر: 3]

🔹 مشرکینِ عرب کا کہنا یہ تھا کہ:

🔸 ہم ان کو اللہ کے قریب لے جانے والے وسیلے سمجھتے ہیں۔
🔸 ہم براہِ راست اللہ تک رسائی کے بجائے، ان مقدس ہستیوں کو درمیانی ذریعہ بناتے ہیں۔
🔸 ان کی عبادت یا پکار مقصد نہیں، وسیلہ ہے۔

📌 لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو کیا کہا؟

"إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ”
"بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور کافر ہو۔”

🔵 اہم نکتہ:

🔹 مشرکین کا دعویٰ تھا کہ:

"ہم بتوں یا اولیاء کو خالق یا رازق نہیں سمجھتے
بلکہ صرف سفارش کے لیے پکارتے ہیں”

🔹 لیکن قرآن نے اسی عقیدے کو بھی شرک کہا، چاہے نیت اچھی ہو یا عقیدہ "عطائی، غیر مستقل” ہو۔

 بریلوی عقائد – وہی شرک، نئی تعبیریں

🔹 بریلوی حضرات اولیاء اور انبیاء سے مدد مانگنے، پکارنے، فریاد کرنے، غیب کی خبریں جاننے اور مشکل کشائی جیسے امور کو جائز سمجھتے ہیں۔

لیکن ان کا دفاع یہ کرتے ہیں کہ:

🔸 ہم انہیں خالق یا اصل مؤثر نہیں سمجھتے
🔸 ہم مانتے ہیں کہ ان کا علم و اختیار عطائی اور محدود ہے
🔸 ہم بس انہیں واسطہ اور وسیلہ بناتے ہیں

🔵 مگر یہی باتیں مشرکینِ عرب بھی کہتے تھے:

"مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ”
"ہم انہیں صرف اللہ کے قریب کرنے کے لیے پوجتے ہیں”

[الزمر: 3]

تو سوال پیدا ہوتا ہے:

🔹 اگر مشرکین عرب کا شرک اس بنیاد پر شرکِ اکبر تھا،
کہ وہ واسطہ و وسیلہ بنا کر غیراللہ کو پکارتے تھے

🔹 تو بریلوی حضرات بھی ہوبہو وہی کام کر رہے ہیں:

🔸 یا غوث! مدد
🔸 یا رسول اللہ! میری فریاد
🔸 یا خواجہ! مشکل کشا
🔸 یا علی! دستگیر

📌 تو کیا فرق رہ گیا؟

گمراہی کو ہدایت سمجھنے کا فریب

🔹 قرآنِ کریم نے مشرکین عرب کے ایک نفسیاتی رویے کو بھی ذکر کیا کہ وہ اپنے عمل کو ہدایت سمجھتے تھے، نہ کہ گمراہی۔

"أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا”
"تو کیا وہ (ہدایت یافتہ ہوگا) جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا، اور وہ اسے اچھا سمجھتا ہے؟”

[سورۃ فاطر: 8]

🔹 یہی حال بریلوی عقائد رکھنے والوں کا بھی ہے:

🔸 وہ غیراللہ کو پکارنا
🔸 مشکل کشائی کا عقیدہ
🔸 قبروں سے حاجت طلبی
🔸 مردوں سے فریاد

📌 ان سب کو عبادت نہیں بلکہ تعظیم، محبت، اور جائز وسیلہ کہہ کر جواز دیتے ہیں
اور اپنے شرکیہ اعمال کو دین و ہدایت کہتے ہیں۔

 نیت اور تاویل سے شرک معاف نہیں ہوتا

 قرآن اور حدیث میں نیتِ خیر یا عقیدہِ عطائی شرک کو ختم نہیں کرتا۔ نبی ﷺ نے "ما شاء اللہ و شئتَ” جیسے معمولی کلمات پر بھی سخت تنبیہ فرمائی۔

📌 لہٰذا:

🔹 شرک، شرک ہی رہتا ہے
🔹 خواہ وہ جاہل کرے یا عالم
🔹 نیت اچھی ہو یا تاویل کی جائے
🔹 لباس دین کا ہو یا محبت کا—شرک ناقابلِ معافی جرم ہے، اگر توبہ نہ کی جائے۔

 زمانۂ حاضر کے "ند” – قبروں کے ولی، مزاروں کے مشکل کشا

🔹 اگر غور کیا جائے تو آج کے دور میں اللہ کے ندّ (ہم پلہ) کن کو بنایا جا رہا ہے؟

🔸 یا رسول اللہ! ہماری فریاد سنیں
🔸 یا غوث اعظم! مدد کریں
🔸 یا خواجہ! مشکل کشائی فرمائیں
🔸 یا علی! ہمارے حال پر رحم کریں
🔸 یا امام حسین! بچا لیں

📌 یہ سب کلمات ظاہری طور پر عقیدت کے لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان میں اللہ کے ساتھ غیراللہ کو مدد، تصرف، سماعت، اور اجابت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔

 کیا یہ واقعی شرک ہے؟

جی ہاں! کیونکہ:

🔹 اللہ فرماتا ہے:

"وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا”
"مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو”

[سورۃ الجن: 18]

🔹 اور فرمایا:

"وَمَنۡ أَضَلُّ مِمَّن يَدۡعُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا يَسۡتَجِيبُ لَهُۥٓ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡقِيَـٰمَةِ”
"اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک جواب نہیں دے سکتے؟”

[سورۃ الأحقاف: 5]

نتیجہ:

🔹 آج کے قبروں پر چادریں چڑھانے والے، منتیں ماننے والے، یا رسول، یا غوث کے نعرے لگانے والے لوگ عملاً وہی کچھ کر رہے ہیں جو مشرکین عرب کیا کرتے تھے۔

📌 نام بدلے، دعوے بدلے، لباس بدلا—لیکن عقیدہ وہی "ند” بنانے والا باقی ہے۔

🤲 آخیر میں اللہ سے دعا ہے:

🔹 اَللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ
❝اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی نصیب فرما، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔❞

🔹 اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْمُوَحِّدِينَ، وَثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى التَّوْحِيدِ حَتَّى نَلْقَاكَ
❝اے اللہ! ہمیں خالص موحد بنا دے اور ہمارے دلوں کو توحید پر قائم رکھ جب تک تجھ سے ملاقات نہ ہو جائے۔❞

🔹 اَللّٰهُمَّ بَرِّئْنَا مِنَ الشِّرْكِ وَأَهْلِهِ، وَاحْشُرْنَا فِي زُمْرَةِ الْمُوَحِّدِينَ، وَاجْعَلْ آخِرَ كَلَامِنَا لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ
❝اے اللہ! ہمیں شرک اور مشرکین سے بری کر دے، ہمیں موحدین کے گروہ میں اٹھا، اور ہمارا آخری کلام "لا إله إلا الله” بنا دے۔❞

🔹 اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ هَذَا الْعَمَلَ خَالِصًا لِوَجْهِكَ، وَلَا تَجْعَلْ فِيهِ لِغَيْرِكَ نَصِيبًا
❝اے اللہ! اس عمل کو خالص اپنے لیے قبول فرما، اور اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہ بنا۔❞

📌 یا اللہ! ہمیں علمِ نافع، عقیدہِ صحیحہ، اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرما۔ آمین

❖ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1