"طلوع اسلام” نامی رسالے نے احادیث کے ذخیرے کو غیر ضروری ثابت کرنے کے لیے ظن اور یقین کی بحث پر بہت زور دیا ہے۔ اس ضمن میں کئی ذیلی مباحث بھی پیش کیے گئے ہیں۔ مقام حدیث کے پیش لفظ میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ:
"طلوع اسلام” کا دعویٰ
اگر آپ کسی مسلمان سے پوچھیں، تو وہ کہے گا کہ دین قرآن اور حدیث دونوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کے دین ہونے پر تو کوئی شبہ نہیں، کیونکہ خدا نے اسے دین کا ضابطہ قرار دیا ہے، لیکن کیا حدیث بھی دین کا حصہ ہے؟ "طلوع اسلام” کا کہنا ہے کہ اگر حدیث دین کا حصہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے امت کو اسی طرح مستند مجموعے کی صورت میں چھوڑتے جیسے قرآن کو دیا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
مغالطے اور جھوٹ
اس اقتباس میں کئی مغالطے اور جھوٹ پائے جاتے ہیں، جن کی وضاحت یہ ہے:
اللہ نے صرف قرآن کو دین کا ضابطہ نہیں کہا: اللہ تعالیٰ نے "بِمَا أَنْزَلَ الله” (جو کچھ اللہ نے نازل کیا) کو دین کا ضابطہ قرار دیا ہے [المائدہ: 5: 45، 47، 49]۔ اس میں ہر قسم کی وحی شامل ہے، چاہے وہ قرآن میں مذکور ہو یا نہ ہو۔
حدیث کا مستند مجموعہ نہ دینا: "طلوع اسلام” کا یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت کو حدیث کا کوئی مستند مجموعہ نہیں دیا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں احادیث کو لکھنے کا کام آپ کی اجازت اور ترغیب سے ہوا تھا۔
مغالطہ: یہ بھی کہنا مغالطہ ہے کہ حدیث کو امت کے لیے مستند مجموعے کی شکل میں چھوڑنا ضروری تھا تاکہ وہ دین کا حصہ بن سکے، حالانکہ "بِمَا أَنْزَلَ اللهُ” میں ہر نازل شدہ وحی دین کا حصہ ہوتی ہے، چاہے وہ تحریری ہو یا زبانی۔
ظن اور یقین کی بحث
"طلوع اسلام” اس دعوے کو ایک اور انداز میں دہراتا ہے کہ دین صرف وہی ہو سکتا ہے جو یقینی ہو، ظنی نہیں۔ اس ضمن میں محدثین کے اس قول کا حوالہ دیا گیا کہ حدیث کا علم ظنی ہے۔ "طلوع اسلام” نے اس قول اور عوام کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر پوری احادیث کو ظنی اور قیاسی قرار دیا، جو اصل محل نزاع ہے۔
لفظ "ظن” کی لغوی بحث
لفظ "ظن” کی لغوی بحث میں ہم امام راغب کی "مفردات القرآن” سے رجوع کرتے ہیں، جسے "طلوع اسلام” نے بھی بطور مستند لغت تسلیم کیا ہے۔ امام راغب کے مطابق:
"ظن” کی تعریف
"کسی چیز کی علامات سے جو نتیجہ نکلتا ہے، اسے ظن کہتے ہیں۔ اگر یہ علامات قوی ہوں تو وہ علم کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں، اور اگر کمزور ہوں تو وہم یا قیاس کی حدود سے آگے نہیں بڑھتیں۔”
ظن اور علم
اگر علامات قوی ہوں اور علم کی صورت اختیار کریں تو قرآن مجید میں "ظن” کے ساتھ "اَنَّ” یا "آن” کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ مندرجہ ذیل آیات میں:
"الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُّلَاقُوا رَبِّهِمْ” [البقرة 2: 46] "وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں۔”
"قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنهُمْ مُلْقُوا اللَّهِ” [البقرة 2: 249] "کہا ان لوگوں نے جو یقین رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ کے روبرو پیش ہونا ہے۔”
"وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ” [القيامة 75: 28] "اور اُس شخص نے یقین کر لیا کہ اب جدائی کا وقت آ پہنچا ہے۔”
مندرجہ بالا آیات میں "ظن” کا لفظ علم و یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
امام راغب کی مزید وضاحت
امام راغب مزید آیات کا حوالہ دیتے ہیں، جہاں "ظن” علم و یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے، لیکن ہم طوالت کے سبب ان کا ذکر یہاں نہیں کر رہے۔
جب "ظن” وہم یا قیاس کے معنوں میں ہو
اگر "ظن” کی علامات کمزور ہوں اور وہ علم کا درجہ حاصل نہ کریں، تو قرآن مجید میں اس کے ساتھ "اِن” یا "اِنَّ” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جو عدم یقین کی نشانی ہے۔ ایسی آیات میں "ظن” کے مقابلے میں یقین، علم یا حق کے الفاظ آتے ہیں، جیسے:
"يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَهِلِيَّةِ” [آل عمران 3: 154] "وہ اللہ کے بارے میں ناحق جاہلیت کے گمان رکھتے ہیں۔”
"وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا” [النجم 53: 28] "ظن (گمان) حق کے مقابلے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا۔”
"الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ” [الفتح 46: 6] "جو اللہ کے بارے میں برے گمان رکھتے ہیں۔”
"إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ” [الجاثية 45: 32] "ہم تو اس کو محض گمان سمجھتے ہیں اور ہم اس پر یقین نہیں رکھتے۔”
"طلوع اسلام” کی دیانت
"طلوع اسلام” کی بحث میں دیانت کا فقدان یوں ہے کہ اس نے صرف ان آیات کو پیش کیا جہاں "ظن” کا مطلب وہم یا قیاس ہے اور ان آیات کو نظرانداز کیا جہاں "ظن” علم و یقین کے معنی دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں ایسی آیات زیادہ ہیں جہاں "ظن” یقین یا علم کے معنوں میں آیا ہے، بنسبت ان آیات کے جن میں "ظن” کا مطلب وہم یا گمان ہے۔
محدثین کے نزدیک لفظ "ظن” کا مفہوم
بعض محدثین نے علم حدیث کے لیے لفظ "ظن” کا استعمال کیا ہے، مگر اس سے ان کی مراد وہ نہیں جو "طلوع اسلام” پیش کرتا ہے۔ محدثین اس لفظ کو ان معنوں میں لیتے تھے جن پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے اور جو اس وقت کے مستعمل مفاہیم کے مطابق تھے۔ محدثین نے اس کی وضاحت کی ہے کہ "ظن” کے مختلف درجے ہیں، جو یقین سے کم ہوتے ہیں، لیکن ان کا مطلب شک یا بے بنیاد گمان ہرگز نہیں ہوتا۔
سنن متواترہ اور تعامل امت
وہ احادیث جن پر امت صحابہ کرام کے دور سے آج تک عمل پیرا ہے، جیسے:
- نمازوں کی تعداد پانچ ہونا
- نماز کی رکعتیں اور ادائیگی کا طریقہ
- حج اور زکوٰۃ کے اصول
- نکاح و طلاق کے قوانین
یہ تمام احادیث تعاملِ امت کے تحت ہیں، جو بغیر کسی انقطاع کے نسل در نسل منتقل ہوکر ہم تک پہنچی ہیں اور قطعی و یقینی ہیں۔
احادیث متواترہ
کچھ احادیث ایسی ہیں جن کا تعلق عمل کے بجائے عقیدہ سے ہے، جیسے:
"إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ” "تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔” [صحیح بخاری، حدیث: 1؛ صحیح مسلم، حدیث: 1907]
"مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا…” "جو شخص میرے ذمے کوئی بات جان بوجھ کر لگائے، اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔” [صحیح بخاری، حدیث: 107؛ صحیح مسلم، مقدمة]
یہ احادیث متواترہ ہیں اور ان سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔
حدیث عزیز اور مشہور
حدیث عزیز: ایسی حدیث جس کے راوی ہر سطح پر دو ہوں اور وہ عادل اور ضابط ہوں۔
حدیث مشہور: وہ حدیث جس کے ہر سطح پر راوی دو سے زیادہ ہوں۔
ایسی احادیث سے گمان غالب حاصل ہوتا ہے، یعنی یہ علم کا ایک بلند درجہ ہے۔
حدیث غریب
حدیث غریب: ایسی حدیث جس کا کسی سطح پر راوی ایک ہی رہ جائے۔ عزیز، مشہور اور غریب تینوں خبر واحد کی اقسام ہیں، اور انہی احادیث کے لیے محدثین نے "ظنی علم” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی "ظن” کا مطلب شک نہیں بلکہ گمان غالب ہے۔
ظن اور علم کی وضاحت
محدثین نے "ظن” کے ساتھ "علم” کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، جس سے مراد وہم یا شک نہیں ہوتا۔ محدثین نے روایت اور درایت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہر حدیث کو جانچا اور اس کی تحقیق کی، پھر اپنی رائے کھلے الفاظ میں ظاہر کی کہ حدیث صحیح ہے، حسن ہے، ضعیف ہے، یا موضوع ہے۔
"طلوع اسلام” کا اعتراض
"طلوع اسلام” کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ احادیث کی درجہ بندی کیوں کی جاتی ہے، مثلاً صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ۔ اس پر محدثین نے وضاحت کی ہے کہ قبولیت کے لحاظ سے احادیث کی دو ہی قسمیں ہیں: مقبول اور مردود۔ یہ فن حدیث کی وسعت اور علمی گہرائی کی نشاندہی کرتا ہے۔
حدیث مقبول کی اقسام
مقبول حدیث کی درج ذیل اقسام ہیں:
- متواتر
- مشہور
- عزیز
- غریب
- صحیح
- حسن
- محکم
- محفوظ
- معروف
- مرسل الصحابی
حدیث مردود کی اقسام
مردود حدیث کی درج ذیل اقسام ہیں:
- موضوع
- متروک
- ضعیف
- مضطرب
- شاذ
- منکر
- معلل
- معضل
- منقطع
عقلوں کا فرق
یہ درست ہے کہ احادیث پر جرح و تنقید کا عمل جاری رہنا چاہیے، لیکن یہ حق صرف ماہرین کو حاصل ہے۔ ہر کس و ناکس کو یہ حق دینا درست نہیں، کیونکہ حدیث کے فن میں مہارت کے بغیر محض عقل کو معیار بنا کر احادیث کو رد کرنا صحیح نہیں۔ محدثین نے روایت اور درایت کے اصولوں پر احادیث کو پرکھا ہے، اور ان کی محنت کے بغیر احادیث کو مردود قرار دینا محض ناسمجھی ہے۔
ظنِ غالب پر دین کی بنیادیں
"طلوع اسلام” کے اعتراضات کا جائزہ
"طلوع اسلام” نے احادیث اور ان کے مقام پر کئی اعتراضات اٹھائے ہیں، جنہیں دوبارہ سامنے رکھنا ضروری ہے:
- اگر احادیث دین کا حصہ تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے کیوں قرآن کی طرح احادیث کا مستند مجموعہ امت کے لیے نہیں چھوڑا؟
- قرآن سے یقین (قطعی علم) حاصل ہوتا ہے، جبکہ احادیث سے صرف ظنی علم ملتا ہے، اور ظن دین کا حصہ نہیں بن سکتا۔
- خبر متواتر سے یقین حاصل ہوتا ہے، لیکن ایسی کوئی خبر متواتر موجود نہیں۔
- روایت بالمعنی کی وجہ سے الفاظ کی تبدیلی یقینی ہے، لہذا احادیث کے متن بھی ظنی ہیں۔
- جرح و تعدیل کا عمل بھی ظنی ہے، کیونکہ اس کا تعلق انسانی باطنی صفات سے ہے، جن کا یقین سے معلوم ہونا ممکن نہیں۔
ظن کی نوعیت: کیا ظن دین ہو سکتا ہے؟
"طلوع اسلام” نے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ظن کا مطلب محض شک اور وہم ہے، لیکن محدثین نے "ظن” کو قرائن سے مفید علم یعنی "گمان غالب” کے معنی میں لیا ہے، اور یہی مفہوم قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔
قرآن سے استدلال: ظنِ غالب اور دین
شہادت ایک ظنی امر ہے، لیکن قرآن نے اسے دین میں ایک قابل اعتماد بنیاد کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر:
"يَأْيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوْا شَهَدَةُ بَيْنِكُمْ…” [المائدة 5: 106] "اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وصیت کے وقت دو عادل گواہ بناؤ۔”
"فَجَزَاء مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ…” [المائدة 5: 95] "شکار کے کفارے کے لیے تم میں سے دو عادل شخص جانور کا تعین کریں۔”
یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ ظنِ غالب پر مبنی شہادت قرآن میں معتبر ہے اور دینی فیصلوں کی بنیاد بن سکتی ہے۔
اعمال کے نتائج اور ظن
ہم جو بھی دینی اعمال انجام دیتے ہیں، ان کے نتائج کے بارے میں یقین نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوں گے یا نہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
"تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ…” [السجدة 32: 16] "وہ خوف اور امید کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔”
یہاں خوف اور امید دونوں ظنی کیفیات ہیں، لیکن پھر بھی یہ دین کا حصہ ہیں۔
آئمہ رجال اور مولانا مودودی کی رائے
مولانا مودودی نے بھی محدثین کے علوم اور ان کی تحقیق کو سراہتے ہوئے کہا کہ:
"محدثین کا کام بے شک عظیم تھا، لیکن چونکہ وہ انسان تھے، لہذا ان کی تحقیقات میں انسانی کمزوریاں شامل ہو سکتی ہیں۔” [مقام حدیث، صفحہ 22-23]
مولانا مودودی کا یہ اعتراف کہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل میں انسانی کمزوریاں ہو سکتی ہیں، اس بات کا انکار نہیں کہ ان علوم سے مفید علم حاصل ہوتا ہے۔ ان کی تحقیقات کو ظنِ غالب کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اور اسی کے تحت بعد کے محدثین نے مزید تحقیق کا دروازہ کھولا۔
ظن کا دینی مقام
محدثین نے جو "ظن” کا لفظ استعمال کیا ہے، اس کا مطلب ہرگز وہم یا شک نہیں، بلکہ یہ "انسانی تحقیق کی حد تک پہنچا ہوا علم” ہے۔ قرآن مجید کی آیت:
"لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا” [البقرة 2: 286] "اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان سے اس کی طاقت کے مطابق ہی تحقیق اور فیصلہ کرنے کی توقع کی گئی ہے، اور ظنِ غالب پر مبنی فیصلے دین کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
نتیجہ
"طلوع اسلام” کا یہ اعتراض کہ ظن دین نہیں ہو سکتا، عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ محدثین نے ظن کو یقین کی حد تک پہنچا ہوا علم تسلیم کیا ہے اور قرآن نے بھی ظنِ غالب کو دینی فیصلوں کی بنیاد تسلیم کیا ہے۔ لہذا، ظنِ غالب دین کا حصہ ہو سکتا ہے اور احادیث کو صرف تاریخی قرار دینا غلط ہے۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال
رسول اللہ ﷺ نے ایک اہم اصول بیان فرمایا:
"إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَى…” [صحیح بخاری: کتاب الأحکام، حدیث: 7169؛ صحیح مسلم: کتاب الأقضیہ، حدیث: 1713] "تم اپنے تنازعات میرے پاس لاتے ہو، ممکن ہے کوئی دلیل پیش کرنے میں زیادہ ہوشیار ہو اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، لیکن اگر وہ اپنے بھائی کا ناجائز حق لیتا ہے تو آگ کا ٹکڑا لے گا۔”
اس حدیث سے ہمیں کچھ اہم نکات معلوم ہوتے ہیں:
- گواہوں کے بیانات میں کذب بیانی کا امکان: عدالت ان بیانات کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرتی ہے، حالانکہ گواہوں کے بیانات میں جھوٹ کا امکان ہوتا ہے۔
- قاضی کے فیصلے میں غلطی کا امکان: قاضی خواہ دیانت داری سے فیصلہ کرے، لیکن گواہوں کی کذب بیانی کی بنیاد پر فیصلے میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔
- غلطی کے باوجود فیصلہ نافذ ہوتا ہے: باوجود اس کے کہ عدالت میں جھوٹے بیانات سے کوئی شخص ناجائز حق لے سکتا ہے، فیصلہ پھر بھی نافذ ہوتا ہے اور یہ عمل قضاء دین کا حصہ ہے۔
سوال
- کیا ایسی اسلامی عدالتیں، جو قانونِ الٰہی کے تحت فیصلے کرتی ہیں، دین کا حصہ ہیں یا نہیں؟
- کیا ظن کے امکان کے باعث عدالتی فیصلوں کو ترک کر دینا چاہیے؟ یقیناً نہیں، کیونکہ یہ عدالتیں ظن کی بنیاد پر بھی اطاعت الٰہی کے تحت کام کرتی ہیں، اور ناجائز فیصلہ لینے والے کو اخروی سزا ملے گی۔
دینی معمولات سے استدلال
فرض کریں، آپ نماز میں بھول جاتے ہیں کہ تین رکعتیں ادا کی ہیں یا چار۔ اس صورت میں آپ کا ظنِ غالب رہنمائی کرے گا۔ آپ شک کی حالت میں غالب گمان کے مطابق عمل کریں گے اور سجدہ سہو ادا کریں گے۔ یہ عین دین ہے، حالانکہ اس کی بنیاد یقین پر نہیں ہے۔
حدیث: "دَعَ مَا يُرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يُرِيبُكَ” [صحیح ترمذی، حدیث: 2045؛ صحیح نسائی، حدیث: 5269] "اس چیز کو چھوڑ دو جو شک پیدا کرے اور اسے اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔”
یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ اگر نیت خالص ہو اور ظن غالب ہو، تو اجتہاد میں غلطی ہو جانے پر بھی دین میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
"طلوع اسلام” کے نظریے کا جائزہ
"طلوع اسلام” کا دعویٰ ہے کہ صرف قرآن میں موجود قوانین غیر متبدل ہیں اور باقی قوانین کو "مرکز ملت” زمانے کے تقاضوں کے مطابق وضع کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ:
- مرکز ملت کے قوانین کی بنیاد: کیا مرکز ملت کے بنائے ہوئے قوانین یقین پر مبنی ہوں گے؟ کیا وہاں بھی بشری کمزوریاں اور ذاتی رحجانات کا اثر نہیں ہو گا؟
- ظنی اور تخمینی قوانین: اگر مرکز ملت کے قوانین بھی ظن پر مبنی ہوں گے تو کیا وہ دین کا حصہ ہوں گے؟ جب کہ قرآن کے علاوہ کوئی چیز قطعی نہیں؟
عام زندگی کے معمولات سے استدلال
دنیا کے تمام امور، چاہے دینی ہوں یا دنیوی، ظن پر ہی چل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر:
- تاجر کو یقین نہیں ہوتا کہ سودا منافع بخش ہوگا، وہ امید پر کام کرتا ہے۔
- بادشاہ جنگ کرتے وقت فتح کی امید رکھتا ہے، حالانکہ شکست بھی ممکن ہے۔
- کسان کھیتی باڑی کرتا ہے، لیکن اس کی بنیاد یقین نہیں بلکہ امید ہوتی ہے۔
اسی ظنِ غالب کو محدثین "ظن” کہتے ہیں، اور یہی انسان کی عملی زندگی کا لازمی حصہ ہے، چاہے معاملہ دینی ہو یا دنیوی۔
خلاصۂ مضمون
"طلوع اسلام” کی جانب سے احادیث اور ظن کے حوالے سے جو اعتراضات پیش کیے گئے ہیں، وہ دراصل عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہیں۔ محدثین اور علمائے کرام نے احادیث کی تحقیق میں جو اصول و ضوابط وضع کیے، ان کی بنیاد شک یا بے یقینی پر نہیں بلکہ ظنِ غالب پر تھی، جو مفید علم اور گمان کی وہ صورت ہے جسے انسانی عقل اور فہم کے ذریعے ممکن حد تک یقین کے قریب پہنچایا جاتا ہے۔
احادیث اور ظن کا مقام
محدثین نے ظن کا لفظ "گمان غالب” کے طور پر استعمال کیا، جو کہ یقینی علم کا متبادل نہیں ہے، لیکن عملی زندگی میں اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن مجید میں شہادت اور عدالتی فیصلے بھی ظن پر مبنی ہوتے ہیں، کیونکہ انسانی علم محدود ہے۔ اس کے باوجود یہ فیصلے دین کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
ظن کی بنیاد پر دین
چاہے عدالتی نظام ہو یا روزمرہ کے دینی معاملات جیسے نماز میں بھول چوک، ان میں ظنِ غالب پر مبنی فیصلے کیے جاتے ہیں اور یہ فیصلے دین کا حصہ ہیں۔ اگرچہ یقین کامل نہیں ہوتا، پھر بھی ان پر عمل اطاعتِ الٰہی کے تحت ہوتا ہے۔
"طلوع اسلام” کا نظریہ
"طلوع اسلام” کا یہ دعویٰ کہ قرآن کے علاوہ باقی سب قوانین ظنی اور غیر یقینی ہیں، اور دین کا حصہ نہیں ہو سکتے، خود ان کے اپنے نظریے کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "مرکز ملت” وقت کے تقاضوں کے مطابق قوانین بنائے گا، مگر ان قوانین کی بنیاد بھی یقین پر نہیں بلکہ ظن پر ہی ہوگی۔
عمومی معاملات میں ظن کا کردار
دنیا کے تمام امور ظن کے سہارے چلتے ہیں، چاہے وہ تجارت ہو، زراعت ہو، یا حکومت۔ کوئی بھی شخص ہر کام میں کامل یقین نہیں رکھتا، بلکہ ظن اور امید پر زندگی گزار رہا ہے۔ یہی حقیقت دینی معاملات میں بھی لاگو ہوتی ہے۔
نتیجہ
ظن، جب قرائن پر مبنی ہو اور گمان غالب کی صورت اختیار کر لے، دین کا حصہ بن سکتا ہے۔ محدثین اور فقہاء کا ظنِ غالب کے تحت احادیث کی درجہ بندی کرنا ایک فطری انسانی عمل ہے، جسے اسلام نے تسلیم کیا ہے۔ دین میں یقین کے ساتھ ساتھ ظنِ غالب کا مقام بھی اہم ہے اور یہ اطاعتِ الٰہی کے دائرے میں آتا ہے۔