حدیث "سورج شیطان کے سینگوں میں” کا مدلل جواب

منکرین حدیث کی تنقید کا خلاصہ

منکرین حدیث ایک حدیث کو اپنی مرضی کے ترجمے اور تشریح کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ اس کا مذاق اڑایا جا سکے۔ ان کی جانب سے بخاری شریف کی حدیث کا ترجمہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے:

"ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو کیونکہ سورج اس وقت شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوتا ہے۔” (بخاری، جلد 2، صفحہ 134)

پھر اعتراض کرتے ہیں کہ اتنا بڑا سورج (جس کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے) شیطان کے سینگوں میں کیسے سما سکتا ہے؟ مزید مزاحیہ انداز میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر سورج شیطان کے سینگوں میں پھنسا رہتا ہے تو پھر نماز پڑھنے کا وقت کبھی بھی جائز نہ ہوگا کیونکہ سورج ہر وقت کہیں نہ کہیں طلوع یا غروب ہو رہا ہوتا ہے۔

منکرین کے اعتراضات کا تجزیہ

منکرین حدیث کے اعتراضات کو درج ذیل نکات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

◈ حدیث کا ظاہری مطلب یہ لیا گیا کہ سورج حقیقتاً شیطان کے سینگوں میں پھنسا ہوتا ہے۔
◈ بڑی چیز (سورج) چھوٹی چیز (شیطان کے سینگ) میں نہیں سما سکتی۔
◈ زمین چونکہ گول ہے اور سورج ہر وقت کسی نہ کسی جگہ طلوع یا غروب ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز کو بالکل ترک کر دینا چاہئے۔

حدیث کا صحیح مطلب اور پس منظر

نماز کے ان اوقات میں ممانعت کی وجہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوع اور غروبِ آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ مشرکوں کے عبادت کے مخصوص اوقات ہیں۔ اس دور میں اور آج بھی کئی قومیں سورج کی پرستش کرتی ہیں۔ طلوع اور غروب کے وقت وہ سورج کے سامنے جھکتے ہیں اور اسے نظام کائنات کا حاکم مانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس بات سے روکا تاکہ وہ مشرکین کے اعمال سے مشابہت نہ کریں۔
حوالہ: (سنن نسائی)

’سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہونا‘

اس حدیث میں مذکور الفاظ "بین قرنی الشیطان” کا مطلب یہ نہیں کہ سورج حقیقتاً شیطان کے سینگوں میں پھنسا ہوتا ہے۔ عربی زبان کے محاورے اور عرفی گفتگو میں یہ اندازِ بیان عام ہے۔
مثال کے طور پر:
◈ کہا جاتا ہے کہ سورج فلاں پہاڑ کے درمیان سے طلوع ہوا، یا درختوں کے درمیان سے نکلا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ سورج ان میں پھنسا ہوا ہے۔
◈ اسی طرح "بین قرنی الشیطان” کا مطلب یہ ہے کہ شیطان سورج کی سمت میں موجود ہوتا ہے اور مشرکوں کو اس وقت سورج کی عبادت پر اکساتا ہے۔

’قرن‘ کا لغوی مطلب

لفظ "قرن” کے معنی سینگ کے علاوہ سر کے کنارے یا اطراف بھی ہوتے ہیں۔
حوالہ: (تاج العروس، صفحہ 21)
شراح حدیث، مثلاً امام نووی رحمہ اللہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ اس حدیث میں "قرن” سے مراد شیطان کے سر کے کنارے ہیں۔
حوالہ: (نووی شرح مسلم، جلد 1، صفحہ 275)

عرفی اور محاوراتی گفتگو کی وضاحت

◈ منکرین حدیث کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عرفی اور محاوراتی گفتگو کو سمجھنے کے بجائے اسے لفظی طور پر لیتے ہیں۔ مثلاً:
اگر کہا جائے کہ سورج درختوں کے درمیان طلوع ہوا تو کوئی بھی عقلمند یہ نہیں سمجھے گا کہ سورج درختوں میں الجھ گیا ہے۔
یہی اصول اس حدیث پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

حدیث کا مفہوم گھڑنے کا الزام

حدیث کا یہ مفہوم، کہ "سورج شیطان کے سینگوں میں پھنسا ہوا ہے”، خالصتاً منکرین حدیث کی ایجاد ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ میں ایسی کوئی بات نہیں کہ سورج سینگوں میں "پھنسا ہوا” ہے۔ یہ مفروضہ گھڑ کر انہوں نے خود اعتراض کھڑا کیا۔

اعتراض: بڑی چیز چھوٹی میں سما نہیں سکتی

منکرین حدیث کے اعتراض کے مطابق، اتنا بڑا سورج شیطان کے سینگوں میں نہیں سما سکتا۔ یہ اعتراض منطقی طور پر بھی درست نہیں کیونکہ:
◈ سورج، جو زمین سے لاکھوں گنا بڑا ہے، ہماری آنکھ جیسی چھوٹی چیز میں سما جاتا ہے۔ انسان سورج کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے تو وہ چھوٹا دکھائی دیتا ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ بہت بڑا ہے۔

قرآن مجید سے ایک مثال

قرآن مجید میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان ہوا ہے:
حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئة ووجد عندھا قوما ۔

ترجمہ: "یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا اور اسے ایک دلدل والے چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا۔” (سورہ کہف: آیت 86)
یہاں بھی ظاہری الفاظ سے مراد یہ نہیں کہ سورج واقعی دلدل میں ڈوب رہا تھا۔ بلکہ یہ ذوالقرنین کو سورج غروب ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ اگر ظاہری الفاظ پر ہی اصرار کیا جائے تو پھر یہ اعتراض قرآن پر بھی آئے گا۔

اعتراض: سورج ہر وقت کسی نہ کسی جگہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے

منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ سورج ہر وقت کہیں نہ کہیں طلوع ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے نماز ترک کر دینی چاہئے، بالکل بے بنیاد ہے:
◈ مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے علاقے کے مشرق اور مغرب کا اعتبار ہوتا ہے۔
◈ کلکتہ والوں کے لیے ان کے طلوع آفتاب کا وقت ہوگا اور کابل والوں کے لیے ان کے طلوع کا وقت۔
◈ اسی طرح روزے کے اوقات بھی ہر جگہ کے اپنے افق کے حساب سے مقرر ہوتے ہیں۔

منکرین حدیث کی خود ساختہ منطق

اگر ان کی منطق مان لی جائے تو پھر رمضان میں بھی سحری و افطاری کو ترک کر دینا چاہئے کیونکہ زمین کے کسی نہ کسی حصے پر ہمیشہ دن یا رات ہوتی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اعتراضات غیر معقول اور بے بنیاد ہیں۔

نتیجہ

◈ حدیث کو سیاق و سباق اور عربی زبان کے محاوراتی انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔
◈ منکرین حدیث کے اعتراضات محض بے جا تاویلات اور ذہنی اختراعات پر مبنی ہیں۔
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو مشرکین کی مشابہت سے بچانے کے لیے طلوع و غروب آفتاب کے اوقات میں عبادت سے روکا، اور اس میں حکمت واضح ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے