حدیث دشمن تحریک اور مستشرقین کا اثر

مستشرقین کی سازشیں

مستشرقین نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مختلف طریقوں سے شکوک و شبہات پیدا کیے۔ ان کی کوششوں کا مقصد مسلمانوں کو اپنے دین سے بدظن کرنا، مغربی فکر و تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرنا، اور دینِ اسلام کی اصل روح کو کمزور کرنا تھا۔ ان سازشوں کا اثر خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقے پر ہوا، جو دینی، فکری اور تہذیبی گمراہی کا شکار ہو گئے۔

مستشرقین کے مقاصد اور طریقہ کار

◈ قرآن و سنت میں شکوک پیدا کرنا: مستشرقین نے قرآن و حدیث کی غلط تشریحات اور تاویلات کے ذریعے مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
◈ مغربی تہذیب کی برتری کا تاثر: اسلام کو مغربی افکار و نظریات کے مطابق ڈھالنے پر زور دیا۔
◈ نوجوانوں کو گمراہ کرنا: تحقیق کے نام پر اپنے فاسد خیالات کو پھیلایا اور نوجوان نسل کو دینی اقدار سے دور کیا۔
◈ مسلمانوں میں انکارِ حدیث کی تحریک: حدیث کو ناقابلِ اعتبار قرار دے کر قرآن کو مغربی سانچے میں ڈھالنے کی راہ ہموار کی۔

مستشرقین سے متاثر مسلم دانشوروں کا کردار

مسلمان دانشوروں اور سکالرز کا ایک طبقہ، خاص طور پر وہ جو مغربی افکار سے مرعوب تھا، مستشرقین کی تحقیقات سے متاثر ہوا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو مغربی معیار کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی اور دینی احکامات کی ایسی تاویل کی جو مغرب پسند ذہن کے لیے قابلِ قبول ہو۔

◈ اسلامی احکام کی غلط تاویلات: اسلامی احکامات کو جدید دور سے غیر مطابقت پذیر قرار دیتے ہوئے ان میں تحریف کی گئی۔
◈ مغربی طرزِ فکر کی ترویج: مسلمانوں کو مغربی اقدار اپنانے پر زور دیا گیا۔
◈ انکارِ حدیث کا فیشن: مستشرقین کے اعتراضات کو دہرایا گیا اور حدیث کو اسلام کا غیر ضروری حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
جیسا کہ علامہ محمد اسد نے لکھا کہ حدیث کو نظرانداز کرکے قرآن کو مغربی تہذیب کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔
("Muhammad Asad, Islam At the Crossroads, Lahore, Arafat Publications, 1955, pp. 112-130”)۔

بیسویں صدی میں انکار حدیث کی تحریک

بیسویں صدی کے آغاز میں مغربی اقوام کے سیاسی اور نظریاتی تسلط نے مسلمانوں کے اندر ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جو مغربی نظریات سے مرعوب تھا۔ یہ طبقہ اسلام کے کئی احکامات کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا تھا اور انہیں مغربی افکار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس تحریک میں سر سید احمد خان، طہٰ حسین، اور ضیاء گوک جیسے افراد نے اہم کردار ادا کیا۔

مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے لکھا:
"اس طبقے کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ حدیث کو راستے سے نہ ہٹایا جائے؛ کیوں کہ احادیث میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ایسی مفصل ہدایات موجود ہیں جو مغربی افکار سے صراحةً متصادم ہیں۔” (درسِ ترمذی: 26/1)

انکارِ حدیث کے حیلے اور بہانے

◈ جامعیتِ قرآن کا نعرہ: دعویٰ کیا کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے کسی اور چیز (حدیث) کی ضرورت نہیں۔
◈ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق احکام کی تشکیل: قرآنی احکام کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی بات کی۔
◈ احادیث کو عقل کے خلاف قرار دینا: چند احادیث کو خلافِ عقل قرار دے کر پورے ذخیرہ حدیث کو ناقابلِ اعتبار بنانے کی کوشش کی۔
◈ باطنی تاویلات: احادیث کو نظرانداز کرکے اپنی ذاتی تشریحات کو اسلام کا حصہ قرار دیا۔

تیرہویں صدی میں انکار حدیث کا آغاز

خلافت کے خاتمے اور مغربی سامراج کے عروج کے بعد انکارِ حدیث کی تحریک زور پکڑ گئی۔ یہ تحریک درحقیقت مستشرقین کی اسلام دشمنی پر مبنی تھی، جسے بعد میں مسلم دانشوروں نے اپنایا۔

مفتی محمد عبدہ اور ان کے شاگرد

مصر کے شیخ محمد عبدہ نے قرآن کے علاوہ باقی تمام دینی علوم، خاص طور پر حدیث، کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا۔ ان کے شاگرد رشید رضا نے حدیث کے بارے میں کہا کہ صرف وہی احادیث قابلِ قبول ہیں جو عملی نوعیت کی ہیں اور جن پر امت کا متفقہ عمل ثابت ہو۔
(رشید رضا، تفسیر المنار، جلد ششم، قاہرہ، 1375ھ، ص 562)۔

آزادی نسواں اور مغربی اقدار کی ترویج

محمد عبدہ کے ایک اور شاگرد، قاسم امین نے یورپی تہذیب سے متاثر ہو کر حجاب کے خاتمے اور مغربی اخلاقیات اپنانے پر زور دیا۔
(قاسم امین، تحریر المراۃ، قاہرہ، 1899ء، ص 169)

خلاصہ

مستشرقین کی کوششوں کا مقصد اسلام کی روح کو مسخ کرنا اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب کا پیروکار بنانا تھا۔ ان کے زیرِ اثر مسلم دانشوروں نے قرآن و سنت کی ایسی تشریحات کیں جو مغربی معیارات سے مطابقت رکھتی تھیں۔ انکارِ حدیث کی تحریک مستشرقین کے افکار کا ہی نتیجہ تھی، جس نے مسلم دنیا میں کئی فتنے پیدا کیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے