حدث اکبر و حدث اصغر سے طہارت صحت نماز کے لیے شرط ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

حدث اکبر و حدث اصغر سے طہارت صحت نماز کے لیے شرط ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا يقبل الله صلاة أحدكم إذا أحدث حتى يتوضا
[بخاري 135 ، أبو داود 60 ، ترمذى 76 ، أحمد 308/2 ، ابن خزيمة 11]
”اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں فرماتے جبکہ وہ بے وضوء ہو جائے تا وقتیکہ وہ وضو نہ کرلے ۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب شروع کر دیا۔ لوگ اسے رو کئے کے لیے کھڑے ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دعوه وأريقوا على بوله سجلا من ماء فإنما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين
[بخاري 220 ، كتاب الوضوء : باب صب الماء على البول فى المسجد ، أبو داود 380 ، ترمذي 147 ، نسائي 175/1 ، ابن ماجة 529 ، أحمد 282/2]
”اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دو، بلاشبہ تمہیں آسانی کرنے والے بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ تنگی و مشقت میں ڈالنے والے ۔ “
جمہور علماء کے نزدیک یہ تینوں اعمال نماز کے لیے واجب ہیں اور ایک جماعت اسے صحت نماز کے لیے شرط کہنے کی بھی دعویدار ہے اور کچھ دوسرے اسے سنت بھی کہتے ہیں لیکن حق بات وجوب ہی ہے۔
[الروضة الندية 225/1 ، فقه السنة 111/1]
واجب کی تعریف: هو الفعل الذى طلب الشارع طلبا جازما بحيث يثاب فاعله و يعاقب تاركه
[البحر المحيط للزركشى 176/1 ، الإحكام للأمذى 19/1 ، المستصفى للغزالي 27/1 ، الموافقات للشاطبي 109/1]
”ايسا کام کہ جسے شارع علیہ سلام نے بالجزم طلب کیا ہو اور اس کے کرنے والے کو ثواب اور نہ کرنے والے کو سزادی جائے ۔ ( مثلاً نماز روزه و غیره) “
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ تینوں افعال (یعنی طہارتِ لباس، بدن، مکان) واجب ہیں شرط نہیں یعنی اگر کوئی ان میں سے کسی کو ترک کر دے گا تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن واجب چھوڑنے کا اسے گناہ ضرور ہوگا تاہم اگر یہ شرط ہوتے تو ان میں سے کسی کو چھوڑنے سے یہ لازم تھا کہ نماز نہ ہوتی جبکہ ایسا نہیں ہے۔

اور وہ اپنا ستر ڈھائیے

➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
يبنى آدَمَ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ
[الأعراف : 7]
”اے اولاد آدم ! تم ہر مسجد میں حاضری کے وقت اپنی زینت (یعنی لباس) پہن لیا کرو۔ “
(ابن کثیرؒ ) یہاں زینت سے مراد ایسا لباس ہے جو شرمگاہ کو چھپالے ۔
[تيسير العلى القدير 197/2]
(قرطبیؒ) یہ آیت ستر پوشی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔
[تفسير قرطبي 190/4]
(جمہور ) ستر پوشی نماز کے فرائض میں سے ایک فرض ہے۔
[أيضا]
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ستر پوشی نماز کے لیے شرط ہے۔
[فتح الباري 13/2]
(شوکانیؒ ) حق بات یہی ہے کہ ستر ڈھانپنا نماز کے لیے صرف واجب ہے۔
[نيل الأوطار 540/1]
➋ حضرت بھز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
احـفـظ عورتك إلا من زوجتك أو ما ملكت يمينك
[حسن: المشكاة 3117 ، أحمد 3/5 – 4 ، أبو داود 4017 ، كتاب الحمام : باب ما جاء فى التعري ، ترمذي 2769 ، ابن ماجة 1920 ، بخاري تعليقا 278 ، فتح الباري 513/1]
” اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے اپنے ستر کی حفاظت کرو ۔“
راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا اگر ہم میں سے کوئی اکیلا ہو ( تو ستر ننگا کر سکتا ہے ) ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
فالله أحق أن يستحبى منه
[نيل الأوطار 531/1]
” الله تعالى زياده مستحق ہیں کہ ان سے حیا کی جائے ۔“
تمام اوقات میں ستر پوشی واجب ہے سوائے قضائے حاجت، اپنی بیوی سے مباشرت اور غسل کے وقت کے اور تمام اشخاص سے واجب ہے سوائے بیوی اور لونڈی کے اور (بوقت ضرورت ) سوائے طبیب وغیرہ کے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے