حج یا عمرے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں عذر پیش آجانا
یعنی کوئی شخص راستے میں ہی کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے ان تمام صورتوں کو احصار کہتے ہیں۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) احصار صرف دشمن کے ذریعے رکاوٹ پڑنے کی صورت میں ہی ہے ۔
[الأم: 342/2 ، المبسوط: 107/4 ، الأصل: 386/2 ، الحاوى: 357/4 ، الخرشي: 391/2 ، حاشية الدسوقي: 97/2 ، المغنى: 203/5 ، الإنصاف: 77/4 ، نيل الأوطار: 450/3]
جمہور کا موقف راجح ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ بہر حال ایسی صورت میں مذکورہ شخص احصار کی جگہ پر احرام کھول دے گا ، اپنا سرمنڈوا لے گا ، اپنی خواتین سے مباشرت کر سکے گا اور وہیں قربانی ذبح کر دے گا۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) قربانی صرف حرم میں ہی ذبح کی جائے گی ۔
[نيل الأوطار: 453/3 ، المغنى: 194/5 ، حلية العلماء: 355/3 ، بدائع الصنائع: 177/2 ، الاختيار: 167/1 ، الكافى: ص/ 161 ، الإنصاف: 517/3 ، هداية السالك: 1281/3]
جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی جگہ پر ہی جانور ذبح کر لیا تھا۔ علاوہ ازیں علما نے اس مسئلے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ محصر پر قربانی واجب ہے یا نہیں۔
(جمہور ) قربانی واجب ہے ان کی دلیل یہ آیت ہے:
فَإِنْ أَحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي [البقرة: 196]
”اگر تم روک دیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو ۔“
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قربانی کی۔
(مالکؒ) قربانی واجب نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ساتھیوں کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا۔ اگر قربانی واجب ہوتی تو سب کے لیے یہ وجوب یکساں ہوتا حالانکہ ایسا ثابت نہیں ہے۔
[نيل الأوطار: 451/3]