حج کی نیت توڑ کر عمرے کی نیت کرنے کا بیان

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ بِالْحَجِّ وَلَيْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْهُمْ هَدْيٌ غَيْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَةَ ، وَقَدِمَ عَلِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الْيَمَنِ . فَقَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ: أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً ، فَيَطُوفُوا ثُمَّ يُقَصِّرُوا وَيَحِلُّوا ، إلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالُوا: نَنْطَلِقُ إلَى مِنًى وَذَكَرُ أَحَدِنَا يَقْطُرُ؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ ، وَلَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ . وَحَاضَتْ عَائِشَةُ . فَنَسَكَتْ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا ، غَيْرَ أَنَّهَا لَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ . فَلَمَّا طَهُرَتْ وَطَافَتْ بِالْبَيْتِ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، يَنْطَلِقُونَ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ ، وَأَنْطَلِقُ بِحَجٍّ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ : أَنْ يَخْرُجَ مَعَهَا إلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ } .
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے احرام باندھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا ان میں سے کسی کے ساتھ بھی قربانی نہیں تھی۔ علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے اور کہا: میں نے اس کا احرام باندھا جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اسے عمرہ بنا لیں، چنانچہ انھوں نے طواف کیا، پھر بال کاٹے اور حلال ہو گئے سوائے اس کے جس کے ساتھ قربانی تھی ، تو انھوں نے کہا: کیا ہم منیٰ کی طرف چلیں ۔ حالانکہ ہم میں سے کسی کا ذکر قطرے گرا رہا ہو؟ اس بات کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے وہ کچھ پہلے سے معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں حلال ہو جاتا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں تو انھوں نے بیت اللہ کا طواف کرنے کے علاوہ تمام مناسک ادا کیے، پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور بیت اللہ کا طواف کیا تو انھوں نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! لوگ حج اور عمرہ کر کے جا رہے ہیں اور میں صرف حج کر کے ہی جارہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ وہ ان کے ساتھ تنعیم جائیں، چنانچہ انھوں نے حج کے بعد عمرہ ادا کیا۔
شرح المفردات:
يقصروا: قصر کا مطلب ہے بال چھوٹے چھوٹے کروانا، یہ حلق تو نہیں ہوتا لیکن اس کے قریب ہی ہوتا ہے ۔ / جمع مذکر غائب، فعل مضارع معلوم، باب تفعیل ۔
ذكر: آدمی کی شرم گاہ ، عضو تناسل ۔
شرح الحديث:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ حائضہ عورت صفا و مروہ کی سعی بھی نہیں کر سکتی ۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس اضافے کو امام مالک رحمہ اللہ سے صرف یحیی بن یحیی نیشاپوری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 504/3]
(240 ) صحيح البخاري، كتاب الحج، باب تقضى الحائض المناسك كلّها الا الطواف بالبيت ، ح: 1651 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب بيان وجوه الاحرام ، ح: 1213

——————
241 – الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ { قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقُولُ: لَبَّيْكَ بِالْحَجِّ . فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً } .
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے اور ہم کہہ رہے تھے: لَبَّيْكَ بِالْحَجَّ (یعنی حج کا تلبیہ کہہ رہےتھے) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تو ہم نے اسے عمرہ بنا دیا۔
شرح الحدیث:
اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حج کا احرام باندھنے کے بعد اسے عمرہ میں بدل دیا، امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب حج افراد اور قران کرنے والے کے لیے جب کہ وہ قربانی کا جانور نہ لایا ہو، اس کے استحباب کا ہے، لیکن اہل ظاہر کے ہاں مطلقاً واجب ہے۔ [شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: 75/3]
(241) صحيح البخاري، كتاب الحج، باب من لبى بالحج ، ح 1570 – صحيح مسلم ، كتاب الحج ، باب فى المتعة بالحج والعمرة ، ح: 1218
242 – الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ . فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً . فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: الْحِلُّ كُلُّهُ } .
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ چوتھی صبح کو آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ عمرہ بنا لیں، انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! (عمرہ کر لینے سے ) کون کون سی چیزیں حلال ہو جائیں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی۔
شرح المفردات:
صبيحة رابعة: ذوالحجہ کے چوتھے دن کی صبح ۔
شرح الحديث:
یعنی تمام وہ امور جو احرام کی وجہ سے محرم پر حرام ہوئے تھے، وہ سب حلال ہو گئے ۔
(242) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب التمتع والاقران والافراد….، ح: 1564 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب جواز العمرة فى أشهر الحج ، ح: 1240
243 – الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ { سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ – وَأَنَا جَالِسٌ – كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ: كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ . فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ } .
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا اور میں (ان کے پاس) بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (عرفات سے) لوٹتے تو (سواری کو ) کس طرح چلاتے تھے؟ انھوں نے کہا: تیز چلاتے تھے اور جب (کھلی) جگہ پاتے تو دوڑاتے تھے۔
شرح المفردات:
العنق: تيز رفتار۔
فجوة: کشادہ اور کھلی جگہ ۔
النص: خوب تیز دوڑانا ، یہ العنق سے اوپر ہوتا ہے۔
شرح الحدیث:
حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر رش ہو تو بہت تیز چلنے سے قدرے آہستہ رفتار میں چلنا چاہیے۔ لیکن اگر ہجوم نہ ہو اور راستہ صاف ہو تو تیز چلنا بھی جائز ہے، لیکن وقار و اطمینان کے ساتھ ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی کہ عَلَيْكُمْ بِالسَّكينة ”سکون و وقار کو لازم پکڑو۔“
[صحيح البخارى: 866]
راوی الحدیث:
آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ آپ جلیل القدر صحابی اور فقہائے سبعہ میں سے ایک تھے۔ خلافت عثمانیہ میں آپ کی ولادت ہوئی اور 94 ہجری میں بہ حالت روزہ وفات پائی۔
(243) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب السير اذا دفع من عرفة ، ح: 1666 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب الافاضة من عرفات الى المزدلفة ، ح: 1286

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل