اور وہ صرف روزوں کی قضائی دے گی۔
حضرت معاذہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضائی تو دیتی ہے لیکن نماز کی قضائی نہیں دیتی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں ایسی حالت در پیش ہوتی تو فتؤمر بقضاء الصوم ولا تؤمر بقضاء الصلاة ”ہمیں روزے کی قضائی کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضائی کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود 236 ، كتاب الطهارة: باب فى الحائض لا تقضى الصلاة ، أبو داود 263 ، أحمد 232/6 ، بخاري 321 ، مسلم 335 ، ترمذي 130، نسالي 191/1، ابن ماجة 631، أبو عوانة 324/1 ، دارمي 233/1 ، بيهقي 308/1]
(نوویؒ) اس مسئلے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ [المجموع 351/2-355]
(شوکانیؒ ) اس مسئلے پر اس امت کے سلف وخلف اور سابق و لاحق کا اجماع ہے اور علمائے اسلام میں سے کسی ایک سے بھی اس میں اختلاف نہیں سنا گیا۔ [السيل الجرار 148/1]
(ابن منذرؒ ) علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ عورت پر حالت حیض میں فوت شدہ نمازوں کی قضائی واجب نہیں ہے البتہ حالت حیض میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضائی اس پر واجب ہے۔ [الإجماع لابن المنذر ص 37 رقم 29،28]
امام ابن عبد البرؒ رقمطراز ہیں کہ خوارج کا ایک گروہ حائضہ عورت پر نماز کی قضاء کو واجب قرار نہیں دیتا۔
[مقالات الإسلاميين لأبي الحسن الأشعرى ص 86-131 ، الفرق بين الفرق للبغدادي ص72-113]
(صدیق حسن خانؒ) (خوارج کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ) اجماع امت میں ایسے لوگوں کی مخالفت ”جو کہ کلاب النار ہیں“ کچھ اثر نہیں رکھتی ۔ [الروضة الندية 190/1]