حائضہ اور تلاوت قرآن
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: ‘‘نبی کریمﷺ میری گود میں ٹیک لگا کر (سر رکھ کر) قرآن کی تلاوت کرتے، حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔

(صحیح بخاری: ۲۹۷، صحیح مسلم: ۳۰۱)

اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

‘‘اس سے اشارہ ملتا ہے کہ حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی، کیونکہ اگر اس کا بذات خود قرآن پڑھنا جائز ہوتا تو اس کی گود میں قرآت کی ممانعت کا وہم نہ ہوتا کہ اس پر مستقل نص کی ضرورت محسوس ہوتی۔ (فتح الباری: ٤۰۲/۱)

یعنی اگر حائضہ خود قرآن پڑھ سکتی ہوتی تو یہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کی گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے، کیونکہ پھر تو وہ بالاولیٰ ثابت ہوجاتا۔ کسی صحابی یا تابعی سے حائضہ کےلیے تلاوت قرآن کی اجازت ثابت نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے۔

ابووائل شقیق بن سلمہ تابعی کہتے ہیں: ‘‘جنبی اور حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتے۔’’ (مصنف ابن ابی شیبۃ:۱۰۲/۱، وسندہ، صحیحٌ)

محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ سے روایت ہے: ‘‘وہ جنبی اورحائضہ کے لیے ایک دو آیات پڑھنے میں کچھ حرج خیال نہیں کرتےتھے۔’’ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۰۲/۱، وسندہ صحیحٌ)
ابو اسحاق عمرو بن عبداللہ السبیعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’میں نے سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا حائضہ اور جنبی قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا، ایک دو آیات پڑھ سکتے ہیں۔’’ (مصنف ابن ابی شیبۃ:۱۰۲/۱، وسندہ صحیحٌ)

امام ابو العالیہ کہتے ہیں: ‘‘حائضہ قرآن نہ پڑھے۔’ (سنن الدارمی: ۱۰۳۵، وسندہ صحیحٌ)

امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی، ہاں! کسی آیت کا کوئی ٹکڑا(بطور دعا) پڑھ لے۔’’ (سنن الدارمی: ۱۰۳۹، وسندہ صحیحٌ)

امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام زہری رحمہ اللہ سے جنبی مردوں اور حیض و نفاس والی عورتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا، ان کو قرآن کا کچھ حصہ بھی پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ’’ (السنن الکبرٰی للبیھقی: ۳۰۹/۱، وسندہ حسنٌ)

ان آثار سے ثابت ہوا کہ حائضہ عورت قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر سکتی۔ ہاں! ایک دو آیات بطور دعا پڑھ سکتی ہے، بطور قرات وہ بھی منع ہیں، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ کے فتویٰ سے عیاں ہے۔

امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کا بھی یہی مذہب ہے، نیز اس بحث سے معلوم ہوا کہ جنبی اورحائضہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے