ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1
سوال
اگر لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کی شادی پر جہیز کے لیے مالی مدد کا تقاضا کریں، تو کیا ان کی مدد کرنی چاہیے؟ جبکہ اسلام میں جہیز دینا بذاتِ خود کوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔
جواب
جہیز کا مفہوم اور رسم:
- "جہیز” عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے "سامان یا اسباب۔”
- یہ وہ سامان ہے جو لڑکی کو نکاح کے موقع پر اس کے والدین کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
- برصغیر پاک و ہند میں یہ رسم ہندوؤں کے اثرات کے نتیجے میں مسلمانوں میں داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
جہیز کے مضر اثرات:
- معاشرتی نقصان:
- کئی غریب لڑکیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے بغیر ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔
- کم جہیز کی بنیاد پر لڑکیوں پر ظلم کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ انہیں قتل یا زندہ جلا دیا جاتا ہے۔
- معاشرتی عدم توازن:
- آج کل دولت کو انسانی رشتوں پر فوقیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ رسم مزید پھیل رہی ہے۔
- اسلام میں ایسے مظالم کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔
اسلام میں جہیز کا حکم:
- اسلام سادگی کا دین ہے اور جہیز کی رسم کی کوئی گنجائش نہیں۔
- عورت کا سب سے بہترین "جہیز” اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے، نہ کہ سامان یا مال و دولت۔
مدد کرنے کا شرعی حکم:
- جہیز کے لیے مالی مدد کرنے کے بجائے شادی کے دیگر امور (مثلاً مہمانوں کے کھانے یا دیگر ضروریات) میں تعاون کرنا بہتر ہے۔
- اس رسم کے خاتمے کے لیے حتی المقدور کوشش کرنا چاہیے، اور ایسے رشتے تلاش کرنے کی ترغیب دینی چاہیے جہاں جہیز کی شرط نہ ہو۔
غریب والدین کے لیے مشورہ:
- جہیز دینا شوہر کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ گھر کا سامان فراہم کرنا شوہر کے فرائض میں شامل ہے۔
- ایسے خاندانوں یا افراد کے ساتھ تعلقات قائم کریں جو سادگی اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔
خلاصہ:
- جہیز کے لیے مالی مدد کرنے کے بجائے شادی کے دیگر امور میں تعاون کرنا زیادہ مناسب ہے۔
- جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے مطابق سادگی اور رشتوں کی اہمیت کو فروغ دیں۔
حوالہ:
اسلامی تعلیمات اور معاشرتی اصلاحات