جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی حدیث کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص183

سوال:

کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو فرمایا:

"ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔”

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کی تحقیق:

یہ حدیث ضعیف اور غیر مستند ہے، بلکہ بعض محدثین نے اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔

◄ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے (موضوعات کبریٰ) میں اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔

◄ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے (تسوید القوس) میں فرمایا:
"یہ حدیث مشہور تو ہے، لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں، بلکہ ابراہیم بن عبلتہ کا قول ہے۔”
(الکنی للنسائی)

◄ یہ حدیث (احیاء علوم الدین) میں مذکور ہے، اور امام عراقی رحمہ اللہ نے (بروایت جابر، امام بیہقی کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا ہے کہ:
"اس کی سند میں ضعف ہے۔”

◄ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خطیب بغدادی نے اسے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی تاریخ میں نقل کیا، اور اس میں یہ الفاظ ہیں:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس آئے اور فرمایا: ‘یہ اچھی واپسی ہے، اور تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو۔’
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: "جہادِ اکبر سے کیا مراد ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا۔’”

◄ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے، جیسا کہ (المطالب العالیہ 3/236) میں ذکر ہوا ہے۔

نتیجہ:

◄ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مرفوعاً ثابت نہیں ہے۔
◄ یہ زیادہ سے زیادہ بعض اہل علم یا تابعین کا قول ہو سکتا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔
◄ جہادِ نفس کی فضیلت دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن اس حدیث کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1