سوال:
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو فرمایا:
"ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔”
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث کی تحقیق:
یہ حدیث ضعیف اور غیر مستند ہے، بلکہ بعض محدثین نے اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔
◄ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے (موضوعات کبریٰ) میں اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
◄ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے (تسوید القوس) میں فرمایا:
"یہ حدیث مشہور تو ہے، لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں، بلکہ ابراہیم بن عبلتہ کا قول ہے۔”
(الکنی للنسائی)
◄ یہ حدیث (احیاء علوم الدین) میں مذکور ہے، اور امام عراقی رحمہ اللہ نے (بروایت جابر، امام بیہقی کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا ہے کہ:
"اس کی سند میں ضعف ہے۔”
◄ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خطیب بغدادی نے اسے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی تاریخ میں نقل کیا، اور اس میں یہ الفاظ ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس آئے اور فرمایا: ‘یہ اچھی واپسی ہے، اور تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو۔’
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: "جہادِ اکبر سے کیا مراد ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا۔’”
◄ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے، جیسا کہ (المطالب العالیہ 3/236) میں ذکر ہوا ہے۔
نتیجہ:
◄ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مرفوعاً ثابت نہیں ہے۔
◄ یہ زیادہ سے زیادہ بعض اہل علم یا تابعین کا قول ہو سکتا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔
◄ جہادِ نفس کی فضیلت دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن اس حدیث کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب