جھگڑا، مذاق اور وعدہ خلافی سے بچنے کی اہمیت
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تمار اخاك ولا تمازحه ولا تعده موعدا فتخلفه ‏‏‏‏ [اخرجه الترمذي بسند ضعيف.]
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر، نہ اس کے ساتھ مذاق کر اور نہ اس سے ایسا وعدہ کر کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔“ (اسے ترمذی نے ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا)
تخریج : ضعيف اسے ترمذی [1995] نے روایت کر کے فرمایا یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے اسی سند سے جانتے ہیں۔ البانی نے اسے ”ضعيف الترمذی“ [341] اور ضعيف الجامع [6274] میں ضعیف قرار دیا ہے۔
مفردات : لاتُمار . مارَي يُمَارِي مُمَاراةً و مِرَاءً باب مفاعلہ سے نہی کا صیغہ ہے مادہ ”م ر ی“ جھگڑا مت کر۔
فَتُخْلِفَه باب افعال سے فعل مضارع ہے اس پر نصب اس لئے ہے کہ یہ لَا تَعِدْهُ نہی کے جواب میں ہے اور اس پر فاء داخل ہوئی ہے۔ اس فاء کے بعد أن ناصبہ مقدر ہوتا ہے

فوائد :
اس حدیث کی سند کیسی ہے ؟ :
اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہیں۔ تقریب میں ہے صدق اختلط اخيرا ولم يتميز حديثه فترك سچا ہے اخیر میں اسے اختلاط ہو گیا اور اس کی حدیث کی تمیز نہیں ہو سکی اس لئے اسے ترک کر دیا گیا۔
ترمذی نے اسے حسن غریب کیوں فرمایا ہے ؟ :
غریب تو اس لئے کہا کہ اس کی سند صرف ایک ہے اور راوی کمزور ہونے کے باوجود حسن اس لئے کہہ دیا ہے کہ اس کے مفہوم کی تائید دوسری آیات و احادیث سے ہوتی ہے۔
کیا ضعیف حدیث بیان کرنا درست ہے ؟ :
ضعیف حدیث بیان کرنا درست نہیں ہاں اگر ساتھ کہہ دیا جائے کہ یہ ضعیف ہے جیسا کہ یہاں مصنف نے واضح کر دیا ہے۔ تو درست ہے کیونکہ کسی حدیث کے ضعف کا علم بھی ایک بہت بڑا علم ہے۔ تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں۔ ہاں اگر اس کی تائید دوسری احادیث سے یا قرآن مجید سے ہوتی ہو تو پھر بطور استدلال بھی بیان کی جا سکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ اس کا ضعف واضح کر دیا جائے تاکہ اصل استدلال مجموعی مفہوم سے ہو صرف ضعیف حدیث کے کسی لفظ کو استدلال کی بنیاد نہ بنایا جائے۔
مسلمان سے جھگڑا کرنا منع ہے :
ناجائز ”مراء“ کی حقیقت یہ ہے کہ تم کسی دوسرے شخص کی بات پر کسی ضرورت اور مقصد کے بغیر اعتراض کرتے رہو اور اس کی خرابی نکالتے رہو مقصد صرف اسے نیچا دکھانا، ذلیل کرنا اور اس پر اپنی برتری ثابت کرنا ہو۔ [سبل السلام]
خواہ مخواہ، جھگڑے کی مذمت صحیح احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان ابغض الرجال الي الله الالد الخصم [صحيح مسلم، العلم 2 ]
” اللہ کو آدمیوں میں سب سے زیادہ ناپسند وہ ہے جو ہٹ دھرم سخت جھگڑالو ہو۔“
اللہ تعالیٰ نے کفار کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :
مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [43-الزخرف:58 ]
” انہوں نے اس (ابن مریم کو آپ کے لئے صرف جھگڑے کے لئے بطور مثال بیان کیا ہے۔ بلکہ وہ سخت جھگڑالو لوگ ہیں۔ “
کیا ہر قسم کا جھگڑا حرام ہے ؟ :
وہ جھگڑا جس کا مقصد حق معلوم کرنا یا حق کو دلیل سے ثابت کرنا ہو اگر اچھے طریقے سے کیا جائے تو جائز بلکہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے فرمایا :
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [16-النحل:125]
” ان کے ساتھ اس طریقے سے جھگڑا کر جو سب سے اچھا ہے۔ “
مناظره، مجادلہ اچھے طریقے سے ہو تو یہ انبیاء کی سنت ہے۔ ابراہیم علیہ السلام سید المناظرین تھے۔ آپ دیکھیں انہوں نے کس طرح نمرود کے خدائی کے دعویٰ کو باطل کر کے اسے مبہوت کر دیا۔ ستارہ، چاند، اور سورج پوجنے والوں کو لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ کی دلیل سے لاجواب کر دیا۔ بت پرستوں کو یہ کہہ دیا کہ ”ان ٹوٹے ہوئے خداؤں سے پوچھ لو یہ سب ان کے اس بڑے کا کام ہے۔“ انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اصل قصور خود تمہارا ہے۔
ہاں اس میں ایک بات مدنظر رہنی چاہئے کہ طریقہ شائستہ ہو بات حسن ہی نہیں احسن ہو اہل کتاب سے بحث کرتے وقت بھی اس کی تاکید فرمائی۔
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [29-العنكبوت:46]
” اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا مت کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہے۔ “
تو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بحث کے لئے تو اور بھی اچھا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
مزاح کی کون سی صورت حرام ہے ؟ :
وہ مزاح جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تحقیر اسے ذلیل کرنا اور اس کا خاکہ اڑانا ہو حرام ہے اس کی تہہ میں خودبینی، تکبر اور اپنی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے اور اس سے دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ [49-الحجرات:11]
” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی عورتوں سے مذاق کریں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ “
مزاح کی جائز صورت کیا ہے ؟ :
جب مزاح صرف خوش طبعی کی حد تک ہو اس میں کوئی غلط یا خلاف واقع بات نہ کی گئی ہو۔ جس شخص سے مذاق کیا گیا ہے اس کی عزت میں کوئی فرق نہ آئے بلکہ وہ خود بھی لطف محسوس کرے اور اسے خوشی حاصل ہو تو ایسا مذاق جائز ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے مگر اس کے لئے بہت تیز ذہانت کی ضرورت ہے کہ کہیں کسی دوست کی دل شکنی نہ ہو جائے۔ ؎
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول الله ! انك تداعينا آپ ہم سے مزاح کر لیتے ہیں۔ فرمایا : اني لا اقول الا حقا ”میں حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ “ [صحيح الترمذي 1621 ]
کتب حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کے کئی واقعات مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول الله ! مجھے سواری دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہم تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دیں گے“ وہ کہنے لگا اونٹنی کے بچے کو میں کیا کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اونٹ او نٹیوں کے بچے ہی تو ہوتے ہیں۔“ [ابوداؤد ماجاء فى المزاح اور ديكهئے صحيح ابي داؤد 4998]
وعدہ خلافی :
وعدہ خلافی کے متعلق تفصیل کے لئے دیکھئے اس باب کی حدیث (1400/6)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے