جھوٹی گواہی قیامت کی نشانی اور اسلامی تعلیمات
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

قرب قیامت کی نشانی: جھوٹی گواہی کا عام ہونا

قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی جھوٹی گواہی کا عام ہونا ہے، جس کا ذکر قرآن و سنت میں بار بار کیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں، یہ مسئلہ معاشرتی بگاڑ کی ایک نمایاں علامت بن چکا ہے اور اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

قرآن و سنت میں جھوٹی گواہی کی مذمت

قرآن مجید میں جھوٹی گواہی کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جھوٹی گواہی کو سختی سے ممنوع قرار دیا ہے۔ سورہ الفرقان میں صالح بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
"وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ” (الفرقان: 72)
ترجمہ: "اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مومن کی صفات میں جھوٹی گواہی سے اجتناب شامل ہے۔ جھوٹی گواہی دینا نہ صرف معاشرتی عدل و انصاف کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

احادیث میں جھوٹی گواہی کی مذمت

نبی کریم ﷺ نے جھوٹی گواہی کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وشهادة الزور، وقول الزور.”
ترجمہ: "کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ (وہ ہیں:) اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔”

اس حدیث میں جھوٹی گواہی کو شرک اور والدین کی نافرمانی جیسے بڑے گناہوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جو اس کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

قیامت کی نشانی: جھوٹی گواہی کا فروغ

رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں جھوٹی گواہی کے عام ہونے کی پیشگوئی فرمائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت عام ہو جائے گی، زنا عام ہو جائے گا، شراب نوشی عام ہو جائے گی، اور جھوٹی گواہیاں دی جائیں گی اور سچی گواہیاں چھپائی جائیں گی۔”
(صحیح بخاری)

یہ حدیث مبارکہ آج کے دور کی عکاسی کرتی ہے، جہاں جھوٹ، دھوکہ دہی، اور عدل کی پامالی معمول بن چکی ہے۔

جھوٹی گواہی کا معاشرتی نقصان

انصاف کی پامالی

جھوٹی گواہی عدالتی نظام کو تباہ کرنے اور مظلوم کو انصاف سے محروم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جب لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں تو ظالم آزاد رہتا ہے اور معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں انصاف کی تلقین

اسلام ہر مسلمان کو سچائی اور عدل پر قائم رہنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ”(النساء: 135)
ترجمہ: "اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے گواہی دو، خواہ وہ خود تمہارے خلاف ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو۔”

یہ آیت اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ سچ کی گواہی دی جائے، چاہے اس کا نتیجہ ذاتی نقصان ہو۔

نتیجہ

جھوٹی گواہی دینا ایک ایسا عمل ہے جو اسلامی تعلیمات میں سختی سے ممنوع ہے۔ یہ نہ صرف ایک بڑا گناہ ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ اور عدالتی نظام کی تباہی کا باعث بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس عمل کو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

عمل کی ضرورت

◈ جھوٹی گواہی سے اجتناب کریں۔
◈ سچائی اور دیانتداری کو فروغ دیں۔
◈ عدل و انصاف کے نظام کی پاسداری کریں۔
اسی میں فرد، معاشرہ اور امت کی فلاح ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے