جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو اس کے لیے یہ مشروع ہے
لفظِ نكاح باب لكَحَ يُنكَحُ (منع ، ضرب ) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”جماع کرنا اور شادی کرنا“ مستعمل ہے ۔
اسْتَنْكَحَ (استفعال) ”شادی کرنا ۔“ انكَحَ (افعال) ”شادی کرانا ۔ “ تناكَحَ (تفاعل) ”ایک دوسرے سے شادی کرنا۔“
[القاموس المحيط: ص/223]
(ابن حجرؒ) لفظِ نکاح لغت میں ”ملانا اور ایک دوسرے میں داخل ہونا ۔“ کے معنی میں ہے اور شرع میں صحیح قول یہ ہے کہ اس کا معنی حقیقی طور پر شادی کرنا اور مجازی طور پر جماع کرنا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کتاب و سنت میں یہ لفظ کثرت کے ساتھ عقدِ نکاح (شادی کرنا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن میں یہ لفظ صرف شادی کرنے کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔
[فتح الباري: 103/9]
(زمخشریؒ ) لفظِ نکاح حقیقی طورر جماع کرنے اور مجازی طور پر شادی کرنے کے لیے مستعمل ہے۔
[تفسير الكشاف: 241/3]
(صديق حسن خانؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[الروضة الندية: 7/2]
(ملاعلی قاریؒ) یہ لفظ جماع اور شادی کے درمیان لفظی طور پر مشترک ہے۔
[مرقاة المفاتيح: 261/6]
(مطرزیؒ ، از ہریؒ) یہ لفظ حقیقت میں جماع کے لیے اور مجازی طور پر شادی کے لیے ہے۔
(احناف) اسی کے قائل ہیں۔
(جمہور فقہا ، شافعیہ ، مالکیہ ) حقیقت میں شادی کے لیے اور مجازی طور پر جماع کے لیے ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ لفظِ نکاح کا معنی ایک ہے لیکن یہ معنی دو معنوں میں مشترک ہے یعنی لفظ نکاح کا معنی الضم ”ملاپ“ ہے۔ اب اگر اس سے مراد عقدِ نکاح لیا جائے تو یہ بھی ایجاب و قبول کا ملاپ ہے اور اگر جماع مراد لیا جائے تو مرد و عورت کا باہم ملاپ ہے۔
[لسان العرب: 625/2 ، المصباح المنير: 965/2 ، معجم مقاييس اللغة: 475/5 ، تبيين الحقائق: 94/2 ، بدائع الصنائع: 1324/3 ، مغني المحتاج: 123/3 ، المغنى: 38 ، الإنصاف: 4/8 ، الوجيز: ص/327]
(خطابیؒ) قوت باء سے مراد نکاح ہے۔
[معالم السنن: 178/3]
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الدراري المضية: 50/2]
(صدیق حسن خانؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[الروضة الندية: 8/2]
(نوویؒ) زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد جماع ہے۔
[شرح مسلم: 188/5]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 134/2]
(ابن حجرؒ ) اس سے جماع اور نکاح کی ضروریات دونوں کی استطاعت و قدرت مراد لی جا سکتی ہے۔
[فتح البارى: 136/10]
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء
”اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی استطاعت ہو اسے نکاح کرنا چاہیے ، کیونکہ نکاح نظر کو جھکانے والا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والا ہے اور جسے استطاعت نہ ہو اس کے لیے روزے کا اہتمام و التزام ضروری ہے اس لیے کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے ۔
[بخاري: 5065 ، كتاب النكاح: باب قول النبي: من استطاع الباءة فليتزوج ، مسلم: 1400 ، ابو داود: 3046 ، نسائي: 171/4 ، ابن ماجة: 1845 ، دارمي: 132/2 ، أحمد: 378/1 ، طيالسي: 303/1 ، أبو يعلى: 5110]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ومن كان ذا طـول فـلـيـنـكـح
”جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1496 ، كتاب النكاح: باب ما جاء فى فضل النكاح ، الصحيحة: 2383 ، ابن ماجة: 1846]
➌ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الدنيا متاع و خير متاع الدنيا المرأة الصالحة
”دنیا سامان ہے اور اس دنیا کا بہترین سامان نیک بیوی ہے ۔“
[مسلم: 1467 ، كتاب الرضاع: باب خير متاع الدنيا المرأة الصالحة]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لم ير للمتحابين مثل التزويج
”دو آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے شادی کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی گئی ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1497 ، كتاب النكاح ، الصحيحة: 224 ، حاكم: 160/2]
➎ نکاح کی مشروعیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
[المغنى: 340/9]