تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
جن لوگوں کی دعا قبول ہوتی ہے
اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ
”مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔“ [صحيح بخاري 1496]
فوائد :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو گورنر بنا کر یمن بھیجا تو انہیں کچھ ہدایات دیں اور فرمایا کہ مظلوم کی آہ و بکا سے بچتے رہنا، مظلوم جب بددعا کرتا ہے تو وہ دل کی گہرائی سے نکلتی ہے اور اللہ کے ہاں شرف قبولیت پاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”تین دعاؤں کے قبول ہونے میں شک نہیں، باپ کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر : 1536]
اس حدیث میں مظلوم کے ساتھ والد گرامی اور مسافر کو بھی بیان کیا گیا ہے واقعی تینوں شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں اخلاص، رقت قلب اور انکساری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی دعا میں خیر اور شر کے دونوں پہلو ممکن ہیں لہٰذا بیٹے کو چاہیے کہ اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور اس کی دعاؤں سے حصہ حاصل کرنے والا بنے۔ مسافر کے ساتھ رواداری کا معاملہ بھی واضح ہے کہ اس کی بددعا ازحد نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تین آدمیوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، روزہ دار جب وہ افطار کے وقت دعا کرتا ہے، عادل بادشاہ اور دعائے مظلوم، اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو بادلوں کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رب کریم فرماتے ہیں : میری عزت کی قسم ! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا خواہ کچھ دیر سے ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 3598]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”بہت جلد قبول ہونے ولی دعا یہ ہے کہ انسان کسی کی غیر موجودگی میں غائبانہ دعا کرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 1980]
”مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔“ [صحيح بخاري 1496]
فوائد :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو گورنر بنا کر یمن بھیجا تو انہیں کچھ ہدایات دیں اور فرمایا کہ مظلوم کی آہ و بکا سے بچتے رہنا، مظلوم جب بددعا کرتا ہے تو وہ دل کی گہرائی سے نکلتی ہے اور اللہ کے ہاں شرف قبولیت پاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”تین دعاؤں کے قبول ہونے میں شک نہیں، باپ کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر : 1536]
اس حدیث میں مظلوم کے ساتھ والد گرامی اور مسافر کو بھی بیان کیا گیا ہے واقعی تینوں شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں اخلاص، رقت قلب اور انکساری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی دعا میں خیر اور شر کے دونوں پہلو ممکن ہیں لہٰذا بیٹے کو چاہیے کہ اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور اس کی دعاؤں سے حصہ حاصل کرنے والا بنے۔ مسافر کے ساتھ رواداری کا معاملہ بھی واضح ہے کہ اس کی بددعا ازحد نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تین آدمیوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، روزہ دار جب وہ افطار کے وقت دعا کرتا ہے، عادل بادشاہ اور دعائے مظلوم، اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو بادلوں کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رب کریم فرماتے ہیں : میری عزت کی قسم ! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا خواہ کچھ دیر سے ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 3598]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”بہت جلد قبول ہونے ولی دعا یہ ہے کہ انسان کسی کی غیر موجودگی میں غائبانہ دعا کرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 1980]