موجودہ فکری رجحانات
دنیا میں جنسی جبلت سے متعلق دو بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں:
جدید لبرل اخلاقیات:
- جنس کو ایک انفرادی مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔
- ہر فرد کو مکمل آزادی دی جانی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے، صنف یا مذہب سے آزاد ہو کر جنسی تعلقات قائم کرے، بشرطیکہ دونوں فریق راضی ہوں۔
- خاندانی نظام یا بچوں کی پرورش جیسی اضافی ذمہ داریوں کو جنسی تعلق سے جوڑنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔
- نسلِ انسانی کی بقا کو انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ریاستی ذمہ داری بنایا جا سکتا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے ریاستی سرپرستی میں بچوں کی پرورش کا مشورہ دیا تھا۔
قدیم معاشرتی نظریہ:
- جنسی جبلت کا مسئلہ محض تسکین کا نہیں بلکہ نسلِ انسانی کی بقا سے جڑا ہوا ہے، اس لیے اس کا حل معاشرتی نظام کے تحت ہی ممکن ہے۔
- خاندان کے ادارے کا مقصد نہ صرف جنسی تعلق کو نظم دینا ہے بلکہ بچوں کی تربیت اور ان کی پرورش کی ذمہ داری کو بانٹنا بھی ہے۔
- روایتی مشرقی معاشرت میں فرد، خاص طور پر خواتین کی ذاتی ترجیحات، خاندان اور برادری کی ضروریات کے تابع ہوتی ہیں۔
- شادی کے فیصلے میں خاندان اور برادری کی ترجیحات غالب ہوتی ہیں، جن میں کفاءت (خاندانی برابری) اور معاشی حیثیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
خاندانی نظام اور موجودہ کشمکش
مشرقی معاشرت میں خاندانی نظام نے ایک مضبوط ڈھانچہ بنا لیا تھا، جس میں فرد کی پسند و ناپسند کو اکثر نظرانداز کیا جاتا تھا، خاص طور پر خواتین کے حقِ نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
جدید تعلیم، روزگار، اور شہری زندگی کے مواقع نے خواتین کی خودمختاری کو بڑھایا، جس سے خاندان اور فرد کے اختیارات کے درمیان توازن میں تبدیلی آئی۔
عمومی تعلیم کی شرح میں اضافے اور میڈیا کے کردار نے نوجوانوں کے جنسی رجحانات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔
اس کے نتیجے میں، نوجوان نسل خاندانی توقعات اور اپنی فطری ضروریات کے درمیان کشمکش کا شکار ہو کر نفسیاتی دباؤ اور غیر اخلاقی رجحانات کی جانب مائل ہو رہی ہے۔
مذہب، اخلاق اور معاشرتی رکاوٹیں
مذہب اور اخلاقیات کی تعلیمات نوجوانوں کو نکاح کے ذریعے جلد از جلد جنسی تسکین کی اجازت دیتی ہیں، مگر معاشرتی روایات اس راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اہم رکاوٹیں:
- شریکِ حیات کے انتخاب کا اختیار والدین کے پاس ہونا
- انتخاب میں خاندان، برادری اور معاشی حیثیت کو ترجیح دینا
- جوائنٹ فیملی سسٹم کی پابندی
- بہن بھائیوں کی شادی میں ترتیب کی پابندی
یہ رکاوٹیں نوجوان نسل کے لیے مشکلات کا سبب بنتی ہیں، کیونکہ وہ مذہب اور فطری جبلت کے تقاضوں کے برخلاف معاشرتی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔
سماجی اصلاحات کی ضرورت
کسی مخصوص خاندانی یا معاشرتی نظام کو مکمل طور پر خیر یا شر قرار دینا دانش مندی نہیں۔
سماجی ڈھانچے وقت اور حالات کے ساتھ ارتقا پذیر ہوتے ہیں، اس لیے ان میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں لانا ضروری ہے۔
آج کے شہری ماحول میں دیہی اور زمیندارانہ معاشرت پر مبنی مشترکہ خاندانی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور نئی نسل پر روایتی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش انتشار کا باعث بن رہی ہے۔
سماجی اصلاحات کے لیے تجاویز
تعلیم کے دوران نکاح کی ترغیب:
- والدین مالی وسائل کی موجودگی میں بچوں کی شادی کو رسمی تعلیم مکمل ہونے یا روزگار ملنے تک موخر نہ کریں بلکہ ان کی مدد کریں کہ وہ مناسب عمر میں شادی کریں۔
نوجوانوں کی مدد میں سماجی کردار:
- معاشرتی رہنما (علماء، اساتذہ، سیاست دان، ذرائع ابلاغ کے نمائندے) نوجوانوں کی شادی کے لیے والدین پر معاشرتی دباؤ کم کریں اور ان کی مدد کریں۔
شادی کے اخراجات میں معاونت:
- شادی کے لیے مالی اعانت کو صدقہ و خیرات کا حصہ بنایا جائے۔
- مختلف کاروباری ادارے، فلاحی تنظیمیں، اور حکومت، نوجوان جوڑوں کے لیے مالی سہولت فراہم کریں۔
کثرتِ ازواج کی ترغیب:
- مناسب رشتوں کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شرعی طور پر کثرت ازواج کو فروغ دیا جائے۔
- خواتین میں اس بارے میں حساسیت کو کم کرنے کے لیے تعلیم و تبلیغ کی جائے۔
نکاح اور طلاق کے بارے میں اعتدال پیدا کرنا:
- طلاق کے بارے میں منفی تصور کو ختم کیا جائے اور اسے دینی اصولوں کے مطابق معاشرتی عیب نہ سمجھا جائے۔
- عہدِ نبویؐ اور عہدِ صحابہ کی مثالوں سے معاشرتی رویوں کی اصلاح کی جائے تاکہ نکاح و طلاق کو فطری انداز میں قبول کیا جا سکے۔
نتیجہ
معاشرتی اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام سے تدریجی طور پر نیو کلیئر فیملی سسٹم کی طرف بڑھا جائے اور نئی نسل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سماجی ڈھانچوں میں لچک پیدا کی جائے۔ علماء، اساتذہ، اور دیگر معاشرتی رہنما اس عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ معاشرتی روایات کو فطری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔