حاملہ عورت فوت ہو جائے تو بچے کی نماز جنازہ
————–
سوال : حاملہ عورت فوت ہو جائے تو کیا بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ؟
جواب : بچے پر علیحدہ نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں، کیونکہ ابھی وہ اپنی ماں کے وجود کا حصہ تھا۔ اسے اسی طرح ماں کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے گا۔ اسے ماں کے بطن سے نکال کر دفن کرنا درست نہیں۔ ہاں، اگر ماں کے فوت ہونے کے بعد بچہ زندہ ہو، تو اسے نکالا جا سکتا ہے۔ پھر اگر وہ فوت ہو جائے، تو اسے جنازہ پڑھ کر الگ دفن کیا جائے گا۔
حائضہ کی دوسرے شہر نماز
————–
سوال : عورت سفر کے لئے گھر سے گی تو حائضہ تھی۔ دوسرے شہر پہنچ کر پاک ہو گئی، وہاں دو دن کا قیام ہے۔ وہاں قصر کرے گی یا پوری نماز پڑھے گی ؟
جواب : ایسی عورت قصر کر سکتی ہے، کیونکہ وہ مسافر ہے۔ حالت حیض میں سفر کے احکام ساقط نہیں ہوتے۔ عمومی دائل کا یہی تقاضا ہے۔
بعض لوگوں سے لکھا ہے :
یہ بالکل بے دلیل بات ہے۔
جنات کا وجود
————–
سوال : کیا جنات کا وجود ہے ؟
جواب : قرآن و حدیث اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ جنات کا وجود ہے۔ تیس کے قریب آیات قرآنی اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں، جیسا کہ :
✿ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [6-الأنعام:112]
”اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جنوں اور انسانوں کو دشمن بنایا۔“
✿ نیز فرمایا :
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ [15-الحجر:27 ]
”اور جنوں کو ہم نے اس سے پہلے لو والی آگ سے پیدا کیا۔“
لیکن جہمیہ، معتزلہ، فلاسفہ، جمہور قدری اور دیگر ملحد و زندیق لوگ جنات کے وجود کو نہیں مانتے۔
◈ شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661۔ 728 ھ) فرماتے ہیں :
لم يخالف أحد من طوائف المسلمين فى وجود الجن، ولا فى أن الله أرسل محمدا صلى الله عليه وسلم إليهم، وجمهور طوائف الكفار على إثبات الجن، أما أهل الكتاب، من اليهود والنصاري؛ فهم مقرون بهم كإقرار المسلمين، وإن وجد فيهم من ينكر ذلك، وكما يوجد فى المسلمين من ينكر ذلك، كما يوجد فى طوائف المسلمين الغالطون، والمعتزلة من ينكر ذلك، وإن كان جمهور الطائفة وأئمتها مقرين بذلك، وهذا لأن وجود الجن تواترت به أخبار الأنبياء تواترا معلوما بالاضطرار، ومعلوم بالاضطرار أنهم أحيا، عقلاء، فاعلون بالإرادة، بل مأمورون منهيون، ليسوا صفات وأعراضا قائمة بالإنسان أو غيره، كما يزعمه بعض الملاحدة، فلما كان أمر الجن متواترا عن الأنبياء تواترا ظاهرا، تعرفه العامة والخاضة، لم يمكن لطائفة كبيرة من الطوائف المومنين بالرسل ان تنكرهم.
”مسلمانوں کے کسی بھی گروہ نے اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ جنوں کا وجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرف بھی مبعوث فرمایا ہے۔ کافروں کے بھی اکثر گروہ جنوں کے وجود کے اقراری ہیں۔ رہے اہل کتاب، تو وہ بھی مسلمانوں کی طرح اس حقیقت کے اقراری ہیں۔ اگرچہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں، جو جنوں کے وجود کے منکر ہیں، جیسے مسلمانوں میں بھی ایسے گمراہ لوگ موجود ہیں۔ معتزلہ میں سے بعض لوگ جنوں کے وجود کو نہیں مانتے، اگرچہ ان کی اکثریت اور ان کے ائمہ جنوں کے اقراری ہیں۔ جنوں کے وجود کے بارے میں انبیاء کرام کی ایسی متواتر احادیث موجود ہیں، جن سے لازمی طور پر یہ بات معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ جن زندہ ہیں، عقل و شعور رکھتے ہیں اور ان میں اپنے ارادے کو سرانجام دینے کی صلاحیت بھی موجود ہے، بلکہ انہیں اللہ کی طرف سے (نیکیوں کا) حکم بھی دیا گیا ہے اور (برائیوں سے) منع بھی کیا گیا ہے . جن کوئی صفات و اعراض نہیں، جو خود مستقل وجود نہ رکھتے ہوں، بلکہ انسان وغیرہ کے ساتھ قائم ہوں، جیسا کہ بعض ملحدین نے کہا ہے۔ جب جنوں کا معاملہ انبیاء کرام سے متواتر طور پر ثابت ہے، جسے خاص و عام سب جانتے ہیں، تو رسولوں پر ایمان لانے والے لوگوں کے کسی بڑے گروہ کے لیے جنوں کے وجود کا انکار ممکن نہیں ہو سکا۔“ [مجموع الفتاوٰي : 10/19 ]
◈ نیز فرماتے ہیں :
إن جميع طوائف المسلمين يقرون بوجود الجن، وكذلك جمهور الكفار، كعامة أهل الكتاب، وكذلك عامة مشركي العرب، وغيرهم من أولاد الهذيل والهند، وغيرهم من أولاد حام، وكذلك جمهور الكنعانيين واليونانيين، وغيرهم من أولاد يافث.
”مسلمانوں کے تمام فرقے جنوں کے وجود کو مانتے ہیں، اسی طرح جمہور کفار، مثلاً: عام اہل کتاب، اکثر مشرکین عرب، ہذیل و ہندکی اولاد، حام کی اولاد، اکثر کنعانی و یونانی اور اولاد یافث، سب جنوں کے وجود کے اقراری ہیں۔“ [مجموع الفتاوٰي : 13/19 ]
◈ علامہ ابن حجر ہیتمی (909۔ 974ھ) لکھتے ہیں :
وأما الجان، فأهل السنة يؤمنون بوجودهم، وإنكار المعتزلة لوجودهم؛ فيه مخالفة للكتاب والسنة والإجماع، بل ألزموا به كفرا، لأن فيه تكذيب النصوص القطعية بوجودهم، ومن ثم قال بعض المالكية : الصواب كفر من أنكر وجودهم، لأنه جحد نص القرآن، والسنن المتواترة، والإجماع الضروري.
”اہل سنت جنوں کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں۔ معتزلہ نے ان کے وجود کا انکار کر کے کتاب و سنت اور اجماع کی مخالفت کی ہے، بلکہ اس کے ذریعے انہوں نے کفر لازم کر لیا ہے . اسی لیے تو بعض مالکیوں نے کہا ہے کہ جنوں کے وجود کے انکاری کا کافر ہونا ہی راجح ہے، کیونکہ ایسا شخص قرآن کریم، احادیث نبویہ اور حتمی اجماع امت کی نصوص کا انکار کرتا ہے۔“ [الفتاوي الحديثيه، ص : 89 ]
↰ معلوم ہوا کہ جو شخص جنات کے وجود کا منکر ہے، وہ قرآن و سنت اور اجماع کی تکذیب کی بنا پر پکا کافر ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنات کی طرف مبعوث ہونا
————–
سوال : کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی طرف بھی مبعوث ہیں؟
جواب : یہ مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کی طرف مبعوث ہوئے اور جن بھی شریعت محمدیہ کے پابند ہیں۔
اجماع امت :
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463ھ) لکھتے ہیں :
ولا يختلفون أن محمدا صلى الله عليه وسلم رسول إلى الإنس والجن نذير وبشير، هذا مما فضل به على الأنبياء أنه بعث إلى الخلق كافة؛ الجن والإنس، وغيره لم يرسل إلا بلسان قومه صلى الله عليه وسلم، ودليل ذلك ما نطق به القرآن من دعائهم إلى الإيمان بقوله فى مواضع من كتابه: يا معشر الجن والإنس.
”اس بات میں مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جنوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر معبوث فرمائے گئے ہیں. یہ ایسی خصوصیت ہے، جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر فضیلت حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات یعنی جنوں اور انسانوں کی طرف معبوث فرمایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ باقی انبیا اپنی قوموں کی زبان ہی میں معبوث فرمائے گئے . اس کی دلیل قرآن کریم کے کئی مقامات پر ایمان کی طرف دعوت دینے کے لیے استعمال کیے ہوئے یہ الفاظ ہیں : يا معشر الجن والانس ”اے جنو اور انسانو !“۔“ [ التمهيد لما فى المؤطإ من المعاني والأسانيد : 117/11 ]
◈ شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
و محمد صلى الله عليه وسلم مبعوث الي الثقلين باتفاق المسلمين.
”مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنوں اور انسانوں کی طرف معبوث کیے گئے ہیں.“ [الفرقان بين أولياء الرحمٰن و أولياء الشيطان : 192 ]
قرآن کریم :
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ ﴿﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ ﴿﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
”(اے نبی !) جب ہم نے آپ کی طرف قرآن کریم سننے کے لئے جنوں کی ایک جماعت بھیجی. جب وہ اس کو حاضر ہوئے، تو انہوں نے کہا : خاموش ہو جاؤ، جب تلاوت ہو چکی، تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر لوٹے . انہوں نے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے وہ کتاب سنی ہے، جو موسیٰ پر نازل ہوئی ہے، وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق بات اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے گا۔“
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (384-458ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
فبان بقولهم : ﴿يا قومنا اجيبوا داعى الله﴾ أنهم عرفوا أنه مبعوث إليهم، وسمعوا دعوته إياهم، والذين لم يحضروا من جملتهم، فلذلك قالوا: ﴿يا قومنا اجيبوا داعى الله وآمنوا به﴾ ، فقالوا : آمنا به.
”جنوں کی اس بات کہ اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی دعوت قبول کر لو، سے واضح ہوتا ہے کہ جنوں کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی طرف بھی مبعوث ہوئے۔ جو جن وہاں آئے اور جو نہیں آئے تھے، سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو سنا۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا : اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی دعوت قبول کر کے اس پر ایمان لے آؤ۔ تب جنوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.“ [شعب الإيمان : 67/3 ]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (701-774ھ) فرماتے ہیں :
فيه دلالة على أنه تعالى أرسل محمدا صلوات الله وسلامه عليه إلى الثقلين الإنس والجن حيث دعاهم إلى الله، وقرأ عليهم السورة التى فيها خطاب الفريقين، وتكليفهم ووعدهم ووعيدهم، وهى سورة الرحمن؛ ولهذا قال : ﴿اجيبوا داعى الله وآمنوا به .﴾
”اس آیت میں یہ وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں اور جنوں دونوں مخلوقات کی طرف معبوث فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اللہ کی طرف بلایا اور ان پر وہ سورت، یعنی سورہ رحمٰن تلاوت کی، جس میں انسانوں اور جنوں دونوں کو خطاب کیا گیا ہے اور ان دونوں سے نعمتوں کا وعدہ اور عذابوں کی وعید کی گئی ہے . اسی لیے جنوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے داعی کی آواز پر لبیک کہو.“ [ تفسير ابن كثير : 588/5 ]
✿ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا
”(اے نبی ! ) فرما دیجئیے : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا، تو کہنے لگے : ہم نے عجیب قرآن سنا ہے، جو ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے، چنانچہ ہم اس پر ایمان لے آے ہیں۔ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی ہرگز شریک نہیں کریں گے۔“
✿ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ [6-الأنعام:19]
”میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ تمہیں بھی ڈراؤں اور ان لوگوں کو بھی جن تک یہ پہنچے گا۔ “
قرآنِ کریم چونکہ جنوں تک بھی پہنچا ہے، لہٰذا وہ بھی اس کے مخاطبین ہیں اور اس پر عمل کے پابند ہیں۔
✿ فرمانِ الہٰی ہے :
سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ [55-الرحمن:31]
”اے جنو اور انسانو ! عنقریب ہم تمہارے لیے فیصلہ کریں گے۔“
✿ ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا :
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ [6-الأنعام:130]
”اے جنو اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟“
◈ علامہ احمد قسطلانی (851-923ھ) لکھتے ہیں :
والدليل على ذلك قبل الإجماع الكتاب والسنة، قال تعالىٰ : ﴿لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ [الفرقان 25 : 1] ، وقد أجمع المفسرون على دخول الجن فى هذه الآية، وهو مدلول لفظها، فلا يخرج عنه الا بدليل .
”امت کا اجماع ہونے سے پہلے کتاب و سنت اس بات پر دلیل تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ [الفرقان 25 : 1]
(تاکہ یہ نبی سارے جہانوں کے لیے ڈرانے والا بن جائے)۔ مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جن بھی اس آیت میں شامل ہیں. یہ آیت کریمہ کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ جنوں کو اس آیت سے کسی دلیل کے ساتھ ہی خارج کیا جا سکتا ہے۔“ [المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 353/2 ]
سنت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
فقلت : ما بال العظم والروثة؟ قال : هما من طعام الجن، وإنه أتاني وفد جن نصيبين، ونعم الجن، فسألوني الزاد، فدعوت الله لهم أن لا يمروا بعظم، ولا بروثة إلا وجدوا عليها طعاما .
’’میں نے عرض کیا : ( اللہ کے رسول ! ) ہڈی اور گوبر کا کیا معاملہ ہے (کہ اس سے استنجا سے روکا گیا ہے ؟)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں جنوں کا کھانا ہیں۔ نصیبین بستی کے جنوں کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا، یہ بہت ہی اچھے جن تھے۔ انہوں نے مجھ سے کھانا مانگا، تو میں نے ان کے لئے اللہ تعالیٰ
سے دُعا کی کہ وہ جس ہڈی یا گوبر کے پاس سے گزریں، اس پر وہ کھانا پائیں۔ “ [صحيح البخاري : 3860 ]
الحاصل :
جنات شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکلّف ہیں. لہٰذا معتزلہ کا یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے۔ قرآن و حدیث اور اجماع مسلمین کی تکذیب صریح کفر ہے۔
جنات کا جنت اور جہنم میں جانا
————–
سوال : کیا جنات بھی جنت اور جہنم میں جائیں گے ؟
جواب : جنات کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ وہ بھی اپنے اعمال کے مطابق جنت اور جہنم میں جائیں گے۔ وہ بھی دین اسلام کے پابند ہیں اور اسی لئے ان میں بھی مومن و کافر اور نیک و بد ہوتے ہیں۔
◈ علامہ فخر الدین رازی( 544-606 ھ) لکھتے ہیں :
وأطبق المحققون على أن الجن مكلفون .
”محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ جن مکلف ہیں۔ “ [تفسير الرازي : 28/28]
جب جنات مکلف ہیں تو ظاہر ہے کہ جنت یا جہنم میں جائیں گے۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661-728 ھ) فرماتے ہیں :
وكفار الجن يدخلون النار بالنص والإجماع، وأما مومنوهم، فجمهور العلماء على انهم يدخلون الجنة
”کافر جن تو نصوص شرعیہ اور اجماع امت کے مطابق جہنم میں جائیں گے، رہے مؤمن جن تو جمہور علماء کرام یہی کہتے ہیں کہ وہ جنت میں جائیں گے۔ “ [الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان : 196 ]
✿ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ [46-الأحقاف:31]
(جنوں نے کہا: ) اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے گا۔ “
اس آیت کریمہ کا منطوق یہ ہے کہ جس نے بھی داعی الی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا، اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا اور دردناک عذاب سے بچا لے گا اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو ایسا نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائیں گے اور دردناک عذاب سے نجات نہیں دیں گے۔
✿ درج ذیل آیات بھی اسی مفہوم کو بیان کرتی ہیں :
وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ [11-هود:119]
”تیرے رب کا یہ کلمہ پورا ہو چکا ہے کہ میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھروں گا۔ “
✿ وَلَـكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ [32-السجدة:13]
” لیکن میری طرف سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے بھروں گا۔ “
✿ قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ [7-الأعراف:38]
” اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اپنے سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے ساتھ آگ میں داخل ہو جاؤ۔ “
✿ وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [7-الأعراف:179]
”یقینا ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جن اور انسان پیدا کر رکھے ہیں۔ “
اس حوالے سے سورۂ جن کی آیت ① سے ⑮ تک کا مطالعہ بھی مفید ہے۔
ان کے علاوہ بھی آیات بینات ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار اور فساق جنات بھی جہنم رسید ہوں گے۔
اسی طرح مومن اور نیک جنات جنت میں بھی جائیں گے، جیسا کہ :
✿ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ ﴿ ﴾ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ [55-الرحمن:46]
”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ تو تم دونوں (انسان اور جن) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟“
یہ خطاب جنوں اور انسانوں دونوں کو ہے۔
تنبیہ : اگر کوئی کہے کہ جنات تو آگ سے پیدا ہوئے ہیں، ان کو آگ کیسے جلائے گی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہنم کی آگ انتہائی تیز اور سخت ہو گی۔ جس طرح لوہا لوہے کو کاٹ دیتا ہے، اسی طرح جہنم کی آگ جنات کی آگ کو جلائے گی۔