جمہوریت: ایک پرفریب تصور
جمہوریت، جدید تہذیب کی سب سے پرکشش اور پرفریب اشیاء میں سے ایک ہے، جو عوام کو یہ دھوکہ دیتی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ہونے والے ہر فیصلے میں شامل ہیں اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ان کی خواہشات اور مرضی کا عکاس ہے۔ مگر حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت کے پیچھے کارفرما نظام زندگی سرمایہ داری ہے، اور اس نظام میں فیصلے عوام کی آراء کی بجائے اس کی علمیت کے تحت کیے جاتے ہیں۔
نظام زندگی اور سرمایہ دارانہ علمیت
کسی بھی نظریے کے نظام زندگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ علمیت فراہم کرتا ہے جس سے زندگی کے تمام پہلوؤں کی تشکیل ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی علمیت سوشل سائنسز ہیں، اور اسی علم کے ذریعے اس نظام کو قائم رکھا جاتا ہے۔ ریاست عوام کی رائے پر نہیں بلکہ معاشیات اور سیاسیات کی طے شدہ بنیادوں پر چلتی ہے۔
ریاست کی ذمہ داریاں
سرمایہ دارانہ علمیت کے تحت، ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ:
➊ وہ ایسی پالیسیاں بنائے جو غیر سرمایہ دارانہ معاشرے کو مارکیٹ میں تبدیل کریں۔
➋ سرمایہ دارانہ لا اینڈ آرڈر یعنی ہیومن رائٹس کی بالادستی کو یقینی بنائے۔
➌ سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے کے لیے علمیت کی ترویج کرے۔
➍ ان قوتوں کا مقابلہ کرے جو اس نظام کے خلاف ہیں۔
➎ جو کام مارکیٹ نہیں کر سکتی، وہ ریاست کے ذمے ہو۔
➏ محروم طبقات کی مدد کرے جو مارکیٹ کے استحصال کا شکار ہیں۔
➐ مارکیٹ میں ارتکازِ سرمائے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استحصال کو ریگولیٹ کرے۔
➑ پرائیویٹائزیشن اور لبرلائزیشن کے ذریعے ریاست کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی تابع بنائے (یعنی گلوبلائزیشن)۔
➒ عالمی نگران اداروں کی ہدایت کے مطابق کام کرے جو سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔
جمہوریت کا ارادہ عمومی
جمہوریت کا اصل مقصد عوام کی رائے کے بجائے "ارادہ عمومی” یعنی سرمائے اور آزادی میں اضافہ کرنا ہے۔ اس ارادہ عمومی کی تشریح سوشل سائنسز اور ہیومن رائٹس کے فریم ورک کے تحت کی جاتی ہے۔ اگر عوام کی اکثریت اس ارادہ عمومی کے خلاف کوئی رائے دے (مثلاً پرائیویٹائزیشن یا لبرلائزیشن کی مخالفت) تو اسے "غلط” سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ نظام اس رائے کو تسلیم نہیں کرتا۔
میڈیا کا کردار
میڈیا اس جھانسے کو برقرار رکھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے ہو رہا ہے، اور اسی دھوکے میں عام آدمی ہر چار پانچ سال بعد ووٹ دینے کے لیے پولنگ بوتھ پر پہنچ جاتا ہے۔
اسلامی رنگ دینے کی کوشش
ہمارے ہاں کے مفکرین نے بھی اس جمہوریت کے دھوکے کو قبول کیا اور اس ولایتی نظام کو یہاں لا کر "شرعی” رنگ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس جمہوریت کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی، لیکن حقیقت میں اس نظام نے ہمارے معاشروں کو ویسا ہی متاثر کیا جیسا کہ یہ تیار کیا گیا تھا۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جہاں جہاں یہ نظام گیا، اس نے مقامی روایات کو بدل دیا اور اپنے اصولوں کو نافذ کیا۔
خلاصہ
➊ جمہوریت عوام کی رائے پر مبنی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ علمیت کی پیروی کرتی ہے۔
➋ ریاست کا اصل مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینا ہے، نہ کہ عوام کی خواہشات کا احترام۔
➌ میڈیا اور سیاسی نظام عوام کو جمہوریت کے دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔
➍ جمہوریت کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی، کیونکہ یہ نظام مقامی روایات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔