لیکن اس سے پہلے دو خطبے مشروع ہیں
جیسا کہ صحیح احادیث میں موجود ہے کہ :
كانت للنبي خطبتان يجلس بينهما
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیا کرتے تھے اور ان دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے ۔“
[مسلم: 862 ، كتاب الجمعة: باب ذكر الخطبتين قبل الصلاة وما فيها من الجلسة ، أبو داود: 1093 ، نسائي: 1417]
(شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) جمعہ کا خطبہ واجب ہے۔
(حسنؒ ، داور ظاہریؒ ) یقیناً خطبہ جمعہ صرف مستحب ہی ہے۔
(ابن حزمؒ ) خطبہ جمعہ واجب نہیں ہے۔
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(صدیق حسن خانؒ) انہوں نے عدم وجوب کو ہی ترجیح دی ہے۔
[نيل الأوطار: 555/2 – 5556 ، المحلى بالآثار: 263 – 264 ، الروضة الندية: 345/1]
(قرطبیؒ) خطبہ جمعہ فرض ہے۔
[تفسير قرطبي: 18 – 114]
(البانیؒ) خطبہ واجب ہے۔
[تمام المنة: ص/ 332 ، التعليقات الرضية على الروضة الندية: 367/1]
جن حضرات کے نزدیک خطبہ واجب نہیں ہے ان کا مستدل یہ ہے کہ مجرد فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوتا اور جو لوگ وجوب کے قائل ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ
[الجمعة: 9]
”اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔“
➋ خطبہ جمعہ ظہر کی دو رکعتوں کا بدل ہے گو کہ جس نے اسے چھوڑا اس نے ظہر کی دو رکعتیں چھوڑ دیں۔“
➌ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَتَرَكُوكَ قَائِمًا
[الجمعة: 11]
” (لوگ جب کوئی سودا بکتا دیکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ کی حالت میں) کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔“
مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں خطبہ چھوڑنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ واجب کو چھوڑنے پر ہی مذمت کی جاتی ہے (نہ کہ کسی مستحب عمل کو چھوڑنے پر ) ۔
[تفسير قرطبي: 114/18]
(راجح) وجوب کے دلائل زیادہ قوی ہیں ۔ والله اعلم
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: اللباب فى علوم الكتاب ”تفسير القرآن“ : 97/19]