جمعہ کے دن گردنیں پھلانگنے کی ممانعت اور اس کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جمعہ کے لیے آنے والے پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے

➊ حضرت عبد الله بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
جاء رجل يتخطى رقاب الناس يوم الجمعة والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم اجلس فقد آذيت
”ایک آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آیا اور اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ بے شک تم نے بہت تکلیف دی ہے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 1326 ، أحمد: 188/4 ، أبو داود: 1118 ، كتاب الصلاة: باب تحطى رقاب الناس يوم الجمعة ، نسائي: 102/3 ، ابن خزيمة: 1811 ، ابن حبان: 2790]
➋ جن اعمال کو دو جمعوں کے درمیانی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ قرار دیا گیا ان میں یہ بھی ہے کہ :
ولا يفرق بين اثنين
”انسان دو آدمیوں کے درمیان فاصلہ نہ کرے ۔ (یعنی انہیں پھلانگ کر درمیان سے نہ گزرے ) ۔“
[بخاري: 883 ، 910 ، كتاب الجمعة: باب الدهن للجمعة ، أحمد: 438/5 ، دارمي: 362/1]
➌ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تخطى رقاب الناس يوم الجمعة اتخذ جسرا إلى جهنم ”جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اسے جہنم کی طرف پل بنایا جائے گا۔“
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 79 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى كراهية التخطي يوم الجمعة ، المشكاة: 1392 ، ترمذي: 513 ، ابن ماجة: 1116 ، أحمد: 437/3 ، شيخ احمد شاكرؒ نے اسے حسن كها هے۔ شرح ترمذي: 379/2 ، شيخ محمد صجی حسن حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 348/1]
➍ حضرت ارقم بن ابی الارقم مخزومی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگنے والے اور امام کے آنے کے بعد دو آدمیوں کے درمیان تفریق ڈالنے والے کے متعلق فرمايا:
كالحار قصبه فى النار
”شخص آگ میں اپنی آنت کھینچنے والے کی طرح ہے۔“
[ضعيف: أحمد: 417/3 ، امام ہثمیؒ فرماتے هيں كه اس حديث كي سند ميں هشام بن زياد راوي هے جس كے ضعف پر (علماء نے) اجماع كيا هے۔ مجمع الزوائد: 179/2 ، مزيد اس راوي كے حكم كے ليے ديكهيے ميزان الاعتدال: 298/4]
(حنابلہ ) دوران خطبہ گردنیں پھلانگنا مکروہ ہے۔
(نوویؒ) یہ عمل حرام ہے (امام شافعیؒ سے بھی یہی حکم نقل کیا گیا ہے )۔
(ابن قیمؒ) یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
[نيل الأوطار: 540/2 ، تحفة الأحوذى: 62/3 ، الروضة الندية: 348/1]
اس حکم سے امام اور ایسا شخص مستثنٰی ہے جو اگلی صفوں میں کچھ خالی جگہ دیکھتا ہے اور پھر وہاں پہنچنے کے لیے گردنیں پھلانگنا ناگزیر ہے۔
[فتح البارى: 392/2]
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ جب امام کے لیے منبر یا محراب تک پہنچنے کے لیے گردنے پھلانگنے کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو یہ عمل مکروہ نہیں کیونکہ یہ ضرورت ہے۔
[المجموع: 420/4]
◈ علاوہ ازیں ایک حدیث سے بوقت ضرورت نماز جمعہ کے علاوہ گردنیں پھلانگنے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے ۔
[تحفة الأحوذي: 63/3]
اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
صليت وراء رسول الله بالمدينة العصر ثم قام مسرعا فتخطى رقاب الناس إلى بعض ححر نساء قال ذكرت شيئا من تبركان عندنا فكرهت أن يحبستي فامرت بقسمته
”میں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز عصر ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرے میں چلے گئے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارے پاس سونے کی ایک ڈلی (تقسیم کرنے سے) بچ گئی تھی مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا لٰہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ۔“
[بخاري: 851 ، 1221 ، كتاب الأذان: باب من صلى بالناس فذكر حاجة فتخطاهم ، نسائي: 406/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1