جمعہ کے دن دو اذانوں کے شرعی جواز کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 177-179

سوال

کیا جمعہ کے دن دو اذانیں دینا سنت ہے؟

الجواب

جمعہ کے دن دو اذانوں کے بارے میں اختلاف

اس مسئلے پر علماء کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک جمعہ کے دن دو اذانیں سنت ہیں، جبکہ دیگر کے نزدیک صرف ایک اذان سنت ہے۔ ذیل میں ان دونوں آراء کی وضاحت پیش کی گئی ہے:

پہلی رائے: جمعہ کے دن دو اذانیں سنت ہیں

دو اذانوں کا جواز:

  • ایک اذان وقت نماز کے لیے اور دوسری اذان امام کے خطبے کے وقت دی جاتی ہے۔
  • یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جمعہ بھی دیگر فرض نمازوں کی طرح ہے اور تمام فرض نمازوں کے لیے اذان کا ہونا ضروری ہے۔
  • اذانِ وقتی کا مقصد نماز کے لیے تیاری کا اعلان کرنا ہے تاکہ لوگ مسجد میں وقت پر پہنچ سکیں اور نوافل ادا کرسکیں۔

دلائل:

  • حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں ایک اضافی اذان کا آغاز کیا جو زواء کے مقام پر دی جاتی تھی، تاکہ دور دراز کے لوگ بھی نماز جمعہ کے وقت سے آگاہ ہو سکیں۔
  • حدیث:
    "کان بلال یوذن اذا رخصت الشمس فلا یقیم حتی یضرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث”
    "بلالؓ اذان اس وقت دیا کرتے تھے جب سورج (ڈھلنے کے بعد) نرم ہوجاتا، لیکن اقامت نہیں کہتے تھے یہاں تک کہ نبی ﷺ باہر تشریف لاتے۔”
    (صحیح مسلم، صفحہ 221، جلد 1، بیہقی، صفحہ 19، جلد 2)

تشریح:

  • اذان وقتی اور اذان خطبہ دونوں کا مقصد مختلف ہے، اور دونوں اہم ہیں۔
  • وقت کی اذان مسلمانوں کو تیار کرنے اور مسجد میں آنے کے لیے ضروری ہے، جبکہ منبر کے پاس دی جانے والی اذان خطبے کے آغاز کا اعلان کرتی ہے۔

دوسری رائے: جمعہ کے دن صرف ایک اذان مسنون ہے

ایک اذان کا جواز:

  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان دی جاتی تھی، جو خطبے کے وقت ہوتی تھی۔
  • یہ عمل خلافتِ صدیقی اور فاروقی میں بھی جاری رہا۔

دلائل:

  • دوسری اذان کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی، لیکن یہ اذان مسجد کے باہر زواء کے مقام پر دی جاتی تھی۔
  • مشکوٰۃ:
    "جمعہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں صرف ایک اذان ہوتی تھی۔”
    (مشکوٰۃ، صفحہ 123، باب الخطبہ والصلوٰۃ)

تشریح:

  • دوسری اذان بعد میں بنی امیہ کے دور میں مسجد کے اندر دی جانے لگی، جسے علماء نے بدعت قرار دیا۔
  • اصل سنت یہی ہے کہ اذان صرف خطبے کے وقت منبر کے قریب یا دروازے پر دی جائے۔

نتیجہ

  • اگر کسی علاقے میں مسلمانوں کو نماز کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے اضافی اعلان کی ضرورت ہو تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اذان بطور اجازت دی جا سکتی ہے، لیکن اسے سنت کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔
  • خطبے کے وقت منبر کے قریب دی جانے والی اذان ہی سنتِ نبوی ہے۔

حوالہ جات

الاعتصام، جلد نمبر 7، شمارہ نمبر 50
مشکوٰۃ، صفحہ 123، باب الخطبہ والصلوٰۃ
الاعتصام، جلد نمبر 3، شمارہ نمبر 8
صحیح مسلم، صفحہ 221، جلد 1، بیہقی، صفحہ 19، جلد 2

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے