جمعہ کی فرضیت سے مستثنٰی افراد اور ان کے احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

سوائے عورت ، غلام ، مسافر اور مریض کے یعنی ان سب پر جمعہ فرض نہیں ہے

➊ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجمعة حق واجب على كل مسلم فى جماعة إلا أربعة: عبد مملوك أو امرأة أو صبى أو مريض
”ہر مسلمان پر جمعہ باجماعت ادا کرنا واجب ہے مگر چار قسم کے لوگ اس سے مستثنٰی ہیں: غلام ، عورت ، بچہ اور مریض ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 942 ، كتاب الصلاة: باب الجمعة للمملوك والمرأة ، أبو داود: 1067 ، دارقطني: 3/2 ، بيهقي: 172/3]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس على مسافر جمعة
”مسافر پر جمعہ ضروری نہیں ہے۔“
[ضعيف: بلوغ المرام: 438 ، رواه الطبراني كما فى التلخيص: 65/2 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ شيخ محمد صجی حسن حلاق نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 196/3 ، شيخ حازم على قاضي رقمطراز هيں كه اس كي سند ضعيف هے ليكن معنى صحيح هے ۔ التعليق على سبل السلام: 658/2]
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ :
من كان يومن بالله واليوم الآخر فعليه الجمعة إلا امرأة أو مسافرا أو عبدا أو مريضا
”جو شخص بھی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ لازم ہے مگر چار قسم کے لوگ اس حکم میں شامل نہیں: عورت ، مسافر ، غلام اور مریض ۔“
[ضعيف: دار قطني: 3/2 ، بيهقي: 184/3 ، الكامل لابن عدى: 632/6 ، يه حديث اس ليے ضعيف هے كيونكه اس كي سند ميں دو راوي ابن لهيعه اور معاذ بن محمد انصاري ضعيف هيں۔ نيل الأوطار: 505/2]
(نوویؒ) ایسی خواتین جو بوڑھی نہیں ہیں ان پر بلا اختلاف جمعہ واجب نہیں ہے البتہ جو بوڑھی ہیں امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ان کے لیے جمعہ میں حاضر ہونا مستحب ہے۔
[المجموع: 496/4]
غلام بھی فرضیت جمعہ سے مستثنٰی ہے البتہ اہل ظاہر سے امام داودؒ عمومی دلائل کی وجہ سے اس پر بھی جمعہ کو واجب کہتے ہیں۔
مریض پر بھی جمعہ واجب نہیں جبکہ اسے جمعہ میں حاضری کے لیے مشقت اٹھانی پڑے۔
(ابو حنیفہؒ) مریض کی طرح اندھے پر بھی جمعہ فرض نہیں اگرچہ مسجد لے جانے کے لیے کوئی اس کا رہنما موجود ہو۔
(شافعیؒ) اگر کوئی رہنما موجود ہو تو اندھے شخص کے لیے جمعہ چھوڑنے کا کوئی عذر نہیں۔
بالا تفاق نابالغ بچے پر بھی جمعہ واجب نہیں ہے۔ اور مسافر پر جمعہ واجب ہے یا نہیں اس کے متعلق چونکہ احادیث ضعیف ہیں اس لیے علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ مسافر پر جمعہ فرض نہیں (جبکہ وہ حالت سفر میں ہو اور اس پر مسافر کا لفظ صادق آتا ہو ) اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران حج عرفات میں جمعہ نہیں پڑھا بلکہ نماز ظہر ادا کی۔
(جمہور ) مسافر پر جمعہ واجب نہیں۔
[نيل الأوطار: 505/2 – 506 ، سبل السلام: 659/2 ، المجموع: 496/4 ، البحر: 4/2]
(امیر صنعانیؒ) مسافر پر جمعہ واجب نہیں ۔
[سبل السلام: 659/2]
(سعودی مجلس افتاء) مسافر پر باجماعت نماز جمعہ واجب نہیں ، اگر وہ حالت سفر میں ہو تو قصر کرے اور اگر مقیم ہو تو ظہر کی چار رکعت ادا کرے ۔
[الفتاوى الإسلامية: 397/1]
(ابن حزمؒ ) مسافر پر جمعہ واجب ہے۔
[المحلى بالآثار: 252/3]
یاد رہے کہ ان سب پر جمعہ فرض تو نہیں لیکن اگر ان میں سے کوئی جمعہ پڑھ لے تو درست ہے اور اسی طرح اگر مریض یا مسافر شخص امامت کرائے تو یہ بھی جائز ہے۔ نیز منھاج السنہ میں ہے کہ غلام ، بچے اور مسافر کے پیچھے جمعہ صحیح ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ ایسے معذور پر جمعہ ضروری نہیں ہے جسے جماعت چھوڑنے کی رخصت دی گئی ہے۔
[الروضة الندية: 341/1 ، المسوى: 194/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1