جزیہ کا تاریخی پس منظر اور اسلامی نظام کی افادیت

جزیہ کا تاریخی پس منظر

تمدن قدیم میں جزیہ کا نفاذ

  • یونانیوں کا جزیہ: پانچویں صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے ایشیائے کوچک کے ساحلی علاقوں کے باشندوں سے جزیہ وصول کیا تاکہ انہیں دشمن حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ ٹیکس ان ساحلی باشندوں کے لیے اپنی جان و مال کی حفاظت کے بدلے مناسب تھا۔
  • رومی حکومت: رومی حکمرانوں نے مفتوح قوموں پر بھاری جزیہ عائد کیا، جو بعض اوقات اسلامی جزیہ سے کئی گنا زیادہ تھا۔ مثال کے طور پر، فرانس میں رومیوں نے سالانہ 9 سے 15 گنی جزیہ عائد کیا۔

جزیہ اسلام سے پہلے

پروفیسر خلیق احمد نظامی کے مطابق، دنیا کے مختلف خطوں میں حکمران اپنی رعایا سے جزیہ کی طرز پر محصولات وصول کرتے تھے:

  • ایران: نوشیرواں عادل نے جزیہ کے قوانین مرتب کیے۔
  • روم اور عرب: ایران اور روم کے زیرِ نگیں علاقوں میں یہ نظام رائج تھا۔
  • ہندوستان: قنوج کے گہروار خاندان ترشکی ڈانڈا نامی ٹیکس وصول کرتا تھا، جبکہ راجپوت ریاستوں میں فی کس ایک روپیہ لیا جاتا تھا۔
  • یورپ: فرانس میں Hoste tax، جرمنی میں Common Penny، اور انگلینڈ میں Sculage جیسے ٹیکس موجود تھے۔

اسلامی جزیہ کی نوعیت

جزیہ اسلام کا کوئی نیا اصول نہیں، بلکہ اس میں غیر مسلموں کو تحفظ دینے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کے بدلے ایک معمولی ٹیکس عائد کیا گیا۔

  • فوجی خدمات سے آزادی: جزیہ کی ادائیگی کے بعد غیر مسلموں کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا تھا۔
  • مذہبی، سماجی، اور عائلی معاملات میں آزادی: غیر مسلم اپنے عقائد اور مذہبی رسومات پر عمل کرنے میں آزاد تھے۔
  • جان و مال اور عزت کی مکمل حفاظت: اسلامی ریاست ان کی حفاظت کی ضمانت دیتی تھی۔

ذمی رعایا کی حیثیت

  • ذمی کی تعریف: وہ غیر مسلم جو اسلامی ریاست کی وفاداری قبول کریں اور ریاستی قوانین کی پابندی کریں۔
  • اسلامی ریاست میں تحفظ: ذمی کو محدود شہری حقوق حاصل ہوتے اور ان کے جان و مال کو تحفظ دیا جاتا تھا۔
  • موازنہ: اسلامی ریاست میں ذمی کی حیثیت برطانوی قانون میں "ایلین” سے مشابہ ہے، جو محدود حقوق رکھتے ہیں۔

غیر مسلم رعایا پر جزیہ کی شرائط

  • جزیہ صرف ان غیر مسلموں پر نافذ ہوتا تھا جو فوجی خدمات کے قابل ہوں۔
  • مستثنیٰ افراد: عورتیں، بچے، معذور افراد، بوڑھے، مذہبی خدام، غلام اور لونڈیاں۔
    (کتاب الخراج، ص:36)

جزیہ کی حکمت اور افادیت

  • بطور مالی بدل: جزیہ غیر مسلموں پر فوجی خدمات کا بدل تھا، یعنی انہیں جنگ میں شامل ہونے کی ضرورت نہ تھی۔
    (علامہ یوسف القرضاوی)
  • اگر اسلامی حکومت غیر مسلم رعایا کی حفاظت نہ کر سکتی تو جزیہ کی رقم واپس کر دی جاتی۔
    (بدائع الصنائع، ج:7)
  • معمولی مقدار: جزیہ کی مقدار مسلمانوں پر عائد زکوٰۃ اور عشر سے کہیں کم ہوتی تھی۔
    (مقالات شبلی، ج:1، ص:231)

جزیہ اور تاریخی اعتراضات کا جائزہ

کیا جزیہ ظالمانہ تھا؟

  • اعتراض: کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ جزیہ غیر مسلموں پر ظلم کا ذریعہ تھا اور تبدیلی مذہب پر مجبور کرتا تھا۔
  • جواب: تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ جزیہ کے باعث بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب ہوئی ہو۔
    (اورنگ زیب: ایک نیا زاویہ نظر، ص:40-41)

ہندوؤں کی رضامندی:

ہندوستان میں محمد بن قاسم اور دیگر مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا لیکن انہیں مذہبی آزادی دی:

  • غیر مسلموں نے اپنی مرضی سے جزیہ قبول کیا اور اسے اپنی حفاظت کی قیمت سمجھا۔
  • مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم رعایا پر کم ٹیکس عائد کیا جاتا تھا۔

جزیہ کا نظام اور غیر مسلم رعایا کا تحفظ

  • اسلامی حکومت کی مثالیں: جب بھی اسلامی حکومت کسی علاقے کی حفاظت میں ناکام ہوتی، تو وصول شدہ جزیہ واپس کر دیا جاتا۔

    حضرت عمرؓ کے دور میں حمص کے غیر مسلموں کو ان کا جزیہ واپس کر دیا گیا تھا کیونکہ اسلامی فوج ان کی حفاظت نہ کر سکی۔
    (بدائع الصنائع، ج:7)

  • دیگر اقوام کا رویہ: غیر مسلم حکمرانوں نے کبھی اپنی رعایا کو ایسی سہولتیں فراہم نہیں کیں، بلکہ اپنے دشمنوں کو مٹانے کے لیے ظلم و ستم ڈھائے۔

نتیجہ

جزیہ ایک معمولی ٹیکس تھا جو غیر مسلم رعایا کی جان، مال، اور مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا تھا۔ اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کو عزت و احترام کے ساتھ رکھا گیا اور انہیں اپنی زندگی گزارنے کی مکمل آزادی دی گئی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے