جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کے امام بخاری کی کتب ہونے پر ناقابل تردید دلائل

بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ جزء رفع الیدین اور جزء القراءة خلف الامام کی نسبت امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ (متوفی 256ھ) کی طرف ثابت نہیں۔ ان کے اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ ان رسائل کی سند میں ایک راوی محمود بن اسحاق البخاری الخزاعی القواس ہیں، جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ’’مجہول‘‘ ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان رسائل کو امام بخاریؒ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ ذیل میں مفصل انداز میں ان اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا اور یہ ثابت کیا جائے گا کہ مذکورہ راوی کو مجہول یا غیر معتبر قرار دینا درست نہیں، بلکہ اس کی توثیق خود ائمۂ حدیث نے کی ہے۔ مزید یہ کہ محدثین و فقہاء کی ایک بڑی جماعت نے جزء رفع الیدین اور جزء القراءة سے بطورِ جزم (یقینی انداز میں) امام بخاریؒ کی کتابیں کہہ کر دلائل پیش کیے ہیں۔

 محمود بن اسحاق البخاری الخزاعی القواسؒ کی حیثیت

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کا حوالہ

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی تصنیف موافقة الخبر الخبر (ج 1، ص 417) میں محمود بن اسحاق کی بیان کردہ ایک روایت کو ’’حَسَن‘‘ قرار دیا ہے۔
جب کوئی محدث، کسی راوی کی منفرد روایت کو صحیح یا حسن کہے تو یہ اس راوی کی توثیق شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ حافظ زیلعی حنفیؒ لکھتے ہیں:
"قولهم: (هذا حديث حسن أو صحيح) توثيق للرواي” (نصب الرایہ، ج 1، ص 190 اور ج 3، ص 264)

اسی اصول پر دیگر محدثین بھی متفق ہیں کہ جب راوی کی روایت کو باقاعدہ صحیح یا حسن قرار دیا جائے تو یہ راوی کے ’’قابلِ اعتماد‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔

نتیجہ

ابن حجر عسقلانیؒ کے موافقة الخبر الخبر کے تبصرے اور عمومی اصولِ حدیث سے ثابت ہوا کہ محمود بن اسحاق کو ’’مجہول‘‘ کہنا درست نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ جیسا عظیم ناقدِ رجال اگر ایک روایت کو حسن قرار دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ راوی بھی "مستور الحال” یا "مجہول العین” نہیں، بلکہ معتبر ہے۔

جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کے امام بخاریؒ سے ثابت ہونے پر دیگر ائمہ کے بیانات

(ا) امام نوویؒ کا حوالہ

امام نوویؒ (متوفی 676ھ) اپنی مشہور کتاب المجموع (ج 1، ص 405) میں فرماتے ہیں:
"وروى البخاري في كتاب رفع اليدين بإسناده الصحيح عن نافع…” ترجمہ: امام بخاریؒ نے اپنی کتاب رفع الیدین میں نافعؒ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

یہ واضح دلیل ہے کہ امام نوویؒ نہ صرف اس کتاب کو امام بخاریؒ کی تصنیف مانتے ہیں بلکہ اس کی سند کو صحیح بھی قرار دے رہے ہیں۔

(ب) امام ابن ملقنؒ کا حوالہ

امام ابن ملقن شافعیؒ (متوفی 804ھ) اپنی کتاب البدر المنیر (ج 3، ص 478) میں فرماتے ہیں:
"وروى البخاري أيضاً في كتاب رفع اليدين بإسناد صحيح…” ترجمہ: امام بخاریؒ نے اپنی کتاب رفع الیدین میں بھی اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(ج) امام زیلعی حنفیؒ کا حوالہ

امام زیلعی حنفیؒ (متوفی 762ھ) جو اپنی کتاب نصب الرایہ میں احناف کے دلائل ذکر کرنے کے لیے مشہور ہیں، وہ بھی (ج 1، ص 390، 393، 395) بارہا لکھتے ہیں:
"وذكر البخاري الأول معلقاً في كتابه المفرد في رفع اليدين” ترجمہ: امام بخاریؒ نے پہلی حدیث کو اپنی مستقل کتاب رفع الیدین میں معلقاً ذکر کیا ہے۔

امام زیلعیؒ جو خود حنفی ہیں، ان کا بطورِ جزم یہ کہنا اس کتاب کے امام بخاریؒ سے ثابت ہونے پر ایک قوی دلیل ہے۔

(د) امام بیہقیؒ کا حوالہ

امام بیہقیؒ (متوفی 458ھ) نے بھی جزء القراءة خلف الامام کو بطور یقین امام بخاریؒ کی کتاب تسلیم کرتے ہوئے اس کے حوالے سے دلائل ذکر کیے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب قراءة خلف الامام (ص 23) میں فرماتے ہیں:
"البخاري في كتاب القراءۃ خلف الإمام…” ترجمہ: امام بخاریؒ نے اپنی کتاب قراءت خلف الامام میں یہ روایت نقل کی ہے۔

(ہ) امام مزیؒ کا حوالہ

امام جمال الدین مزیؒ (متوفی 742ھ) اپنی شہرۂ آفاق کتاب تہذیب الکمال (ج 14، ص 67) میں لکھتے ہیں:
"روى له البخاري في كتاب القراءة خلف الإمام…” ترجمہ: امام بخاریؒ نے اس راوی سے اپنی کتاب قراءت خلف الامام میں روایت کی ہے۔

(و) امام عینی حنفیؒ کا حوالہ

امام بدر الدین عینی حنفیؒ (متوفی 855ھ) اپنی مشہور شرحِ بخاری عمدۃ القاری (ج 5، ص 272) میں فرماتے ہیں: "وقال البخاري في كتابه رفع اليدين في الصلاة…” ترجمہ: امام بخاریؒ نے اپنی کتاب رفع الیدین فی الصلوٰۃ میں فرمایا ہے…

اسی طرح امام عینیؒ نے اپنی کتب شرح سنن ابی داود (ج 3، ص 350) اور معانی الاخبار (ج 3، ص 476) میں بھی اس کا ذکر بطور یقین کیا ہے۔

متاخرین احناف کے بیانات

(ا) محمد بن علی نیموی حنفی

نیموی حنفی (المتوفی 1322ھ) اپنی کتاب آثار السنن (ص 169) میں لکھتے ہیں:
"رواه البخاري في جزء رفع اليدين واسناده صحيح” ترجمہ: امام بخاریؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب جزء رفع الیدین میں روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

(ب) مولانا صوفی عبدالرحمٰن خان سواتی دیوبندی

مولانا صوفی عبدالرحمٰن سواتی دیوبندی اپنی کتاب نماز مسنون کلاں (ص 646) میں لکھتے ہیں:
"قنوتِ وتر میں رفع الیدین کے سلسلے میں امام بخاریؒ اپنے رسالہ جزء رفع الیدین میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے سندِ صحیح کے ساتھ نقل کرتے ہیں…”

(ج) فیض احمد ملتانی دیوبندی

فیض احمد ملتانی دیوبندی نے اپنی کتاب مدلل نماز (ص 118) میں فرمایا:
"امام بخاریؒ نے جزء القراءة (ص 11) پر فرمایا…”
یہ بھی جزء القراءة کے بُخاریؒ سے ثابت ہونے کی شہادت ہے۔

ان تمام اکابرین کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ قدیم و جدید ہر دو طبقوں نے ان اجزاء کے مولف کے طور پر امام بخاریؒ کو تسلیم کیا ہے۔

 اعتراض اور اس کا تجزیہ

اعتراض:

“جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کی سند میں محمود بن اسحاق نامی راوی مجہول ہے، اس لیے اس کتاب کو امام بخاریؒ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔”

تجزیہ:

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ محمود بن اسحاق کی روایت کو “حسن” قرار دے چکے ہیں۔
جب کوئی محدث کسی راوی کی روایت کو حسن یا صحیح قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب راوی کی توثیق ہوتا ہے۔ یہ عمومی قواعدِ جرح و تعدیل میں ثابت شدہ اصول ہے۔
نیز جن بڑے بڑے ائمہ نے جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کو امام بخاریؒ کی طرف قطعیت کے ساتھ منسوب کیا، اُن میں امام نوویؒ، امام بیہقیؒ، امام عینیؒ اور دیگر معتبر شخصیات شامل ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ اتنے جلیل القدر محدثین و فقہاء ایک ’’مجہول الراوی‘‘ کی سند والی کتاب کو بلاجھجھک امام بخاریؒ سے منسوب کریں اور اس پر دلائل قائم کریں۔
عملی طور پر بھی ان رسائل کے کئی قدیم مخطوطات موجود ہیں جن کی نسبت ابتدا ہی سے امام بخاریؒ کی طرف کی گئی ہے، اور ان کے ناسخین و ناقلین بھی معتبر تھے۔

مزید شہادتیں اور تحقیق

حاجی خلیفہؒ (متوفی 1067ھ) نے اپنی کتاب کشف الظنون (ج 1، ص 597) میں امام بخاریؒ کے ان اجزاء کا تذکرہ کیا ہے۔
ماضی اور حال کے بہت سے محققینِ حدیث نے جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کے مخطوط نسخوں کی فہرستیں مرتب کی ہیں۔ ان نسخوں کے آغاز اور اختتام میں امام بخاریؒ کی نسبت واضح طور پر درج ہے۔
ان تمام شواہد کو اکٹھا کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ جزء رفع الیدین اور جزء القراءة فی الواقع امام بخاریؒ ہی کی تصنیفات ہیں اور ان میں کوئی ایسی کمزوری نہیں جو ان کی نسبت کو مشکوک بنا دے۔

6) خلاصۂ تحقیق

محمود بن اسحاق البخاری الخزاعی القواس ہرگز مجہول یا ناقابلِ اعتبار راوی نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی صراحت کے مطابق اس کی حدیث کو ’’حسن‘‘ کہنا اس راوی کی توثیق ہے۔
ماضی قریب و بعید کے معتبر محدثین اور فقہاء (امام نوویؒ، ابن ملقنؒ، زیلعیؒ، بیہقیؒ، عینیؒ، نیموی حنفیؒ، صوفی عبدالرحمٰن سواتی دیوبندی وغیرہ) نے جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کو بارہا امام بخاریؒ کی کتاب قرار دیا ہے اور ان سے دلائل لی ہیں۔
ان اجزاء کے کچھ نسخے آج بھی مخطوط و مطبوع شکل میں دستیاب ہیں، جن کی نسبت قدیم زمانے سے امام بخاریؒ کی طرف تسلیم شدہ ہے۔
حنفی یا غیر حنفی؛ تقریباً ہر مسلک کے علماء نے ان رسائل کے انتساب کو امام بخاریؒ کی طرف قطعی مانا ہے اور اعتراضات کو ناقابلِ التفات قرار دیا ہے۔
لہٰذا یہ دعویٰ کہ یہ دونوں اجزاء امام بخاریؒ کی طرف ثابت نہیں، ادلہ و شواہد کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔

دعا

اللہ تعالیٰ ہم سب کو خالص دینی دلائل کا فہم اور انہیں قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ساتھ ہی تمام اہلِ علم کو باہمی احترام اور تحقیق کی راہ پر چلتے ہوئے دین کا صحیح شعور عام کرنے کی ہمت عطا کرے۔ آمین۔

والسلام علیٰ من اتبع الہدٰی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1