سول سوسائٹی اور انفرادیت
جدید سول سوسائٹی کا تصور فرد کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتا ہے جو اپنی ذاتی آزادی اور اغراض کے حصول کی خواہش رکھتی ہے۔ اس نظام میں انفرادیت کا فروغ بنیادی مقصد ہوتا ہے، مگر یہ انفرادیت محبت، صلہ رحمی، یا خاندانی تعلقات کے بجائے صرف ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ژاں پال سارتر کے الفاظ
"Hell is other people”
سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاشرت میں ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طور پر کسی کی آزادی کو محدود کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔
عمرانی معاہدہ اور تعلقات کی نوعیت
سول سوسائٹی میں تعلقات کی بنیاد ایک عمرانی معاہدے
(Social Contract)
پر ہوتی ہے:
- ہر فرد اپنی ذاتی آزادی کا احترام کرتے ہوئے دوسرے کی آزادی میں مداخلت نہ کرے۔
- تعلقات کا محور ذاتی اغراض کی تکمیل ہوتا ہے، نہ کہ محبت یا قربانی۔
معاہدہ نکاح اور عمرانی معاہدہ کا فرق
جدید مسلم مفکرین کی غلط فہمی یہ رہی کہ انہوں نے معاہدہ نکاح کو عمرانی معاہدے پر قیاس کیا۔ نکاح محبت، صلہ رحمی، اور عمر بھر کے عہد و وفا پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ عمرانی معاہدہ محض مفادات کے تحت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمرانی معاہدے کی بنیاد پر معاشرت میں خاندانی نظام تحلیل ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ معاہدہ محبت اور روایتی تعلقات کی نفی کرتا ہے۔
جدید معاشرتی نظام میں اسلامی شناخت کا چیلنج
جدید معاشرتی نظام میں فرد کی شناخت کو صرف "ذاتی اغراض کا متلاشی فرد” سمجھا جاتا ہے، نہ کہ کسی مذہبی یا روایتی تعلق سے وابستہ۔ ایسے نظام میں:
- مذہبی اور روایتی شناخت دب جاتی ہے۔
- خاندانی تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں۔
- اسلامی ادارے، قوانین، اور روایتی انفرادیت بے معنی یا غیر متعلق معلوم ہونے لگتی ہیں۔
روایتی اسلامی تصور کے خلاف جدید فکری رویہ
جدید مفکرین نے اسلامی فہم کو جدید معاشرتی نظام کے تحت ڈھالنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں:
- فقہ اور اسلامی تاریخ کو جدید معیار پر پرکھا گیا۔
- قرون اولیٰ کے معاشرتی و ریاستی نظم کو غیر متعلق قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
- "اجتہاد مطلق” کے نام پر اسلامی اصولوں کی دوبارہ تعبیر کی گئی۔
اسلامی فکر کے معتبر ہونے کی بنیاد
آئمہ سلف کے فہم اسلام کی قدر دو وجوہات کی بنا پر ہے:
- یہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہؓ کے براہ راست شاگردوں کا تسلسل ہے۔
- ان کا معاشرتی و ریاستی تناظر موجودہ جدید تناظر کے مقابلے میں کہیں زیادہ معتبر اور اسلامی اصولوں کے قریب تھا۔
جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان
ہر جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان دہرایا جاتا ہے:
"خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم”
"سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر وہ جو اس کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ)
یہ محض اخلاقی اصول نہیں، بلکہ اس میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ ابتدائی قرون کی معاشرت اور ریاستی نظم بہترین تھا۔