مغالطہ: ایمان بالغیب اور اندھا ایمان
ہماری معاشرت میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ سائنسی علم صرف ایمان بالشہود (یعنی مشاہدے پر مبنی ایمان) کو تسلیم کرتا ہے، جبکہ خدا کے وجود پر ایمان کے لیے ایمان بالغیب ضروری ہے، جسے اکثر لوگ اندھا ایمان سمجھ لیتے ہیں۔ اس مغالطے کی وجہ سے خدا پر ایمان کمزور پڑ جاتا ہے، کیونکہ لوگوں کو یہ سوال درپیش ہوتا ہے کہ جب خدا حواس خمسہ کی گرفت میں نہیں آتا تو اسے کیسے مانا جا سکتا ہے؟
کیا سائنس صرف مشاہدے پر مبنی ہے؟
یہ دعویٰ کہ سائنس صرف مشاہدے اور تجربے کو تسلیم کرتی ہے، درست نہیں۔ جدید سائنس نے کئی اہم حقائق دریافت کیے ہیں جو سراسر ایمان بالغیب کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً:
- قانون تجاذب (Law of Gravitation): یہ قانون بذات خود ناقابل مشاہدہ ہے، لیکن اس کے اثرات اتنے واضح ہیں کہ کوئی اسے جھٹلا نہیں سکتا۔
- انرجی (Energy): توانائی کو نہ دیکھا جا سکتا ہے، نہ چھوا جا سکتا ہے، لیکن اس کے اثرات ہر جگہ موجود ہیں۔
- کوانٹم فزکس اور ویو میکینکس: جدید سائنس میں الیکٹران، پروٹان، اور دیگر ذرات کا مشاہدہ براہ راست ممکن نہیں، لیکن ان کے اثرات کی بنیاد پر ان کی موجودگی تسلیم کی جاتی ہے۔
ایمان بالغیب کی درست تفہیم
ایمان بالغیب کا مطلب اندھا ایمان نہیں بلکہ بن دیکھے استدلال ہے۔ یہ وہی منطق ہے جس پر جدید سائنس کے کئی نظریات قائم ہیں۔ آج کی سائنس کے اصولوں کے مطابق، کسی چیز کو بلاواسطہ مشاہدے کے بغیر تسلیم کرنا غلط نہیں، بشرطیکہ اس کے اثرات واضح اور مشاہدے کے مطابق ہوں۔
مذہب، سائنس، اور استدلال کا فرق
تجربیت (Positivism) اور مذہبی تصورات
مغربی فلسفے کا تجربیت پر مبنی نظریہ یہ کہتا ہے کہ صرف وہی چیزیں حقیقی ہیں جو مشاہدے اور تجربے میں آ سکیں۔ چونکہ مذہب کے بہت سے تصورات مثلاً جنت، دوزخ، اور خدا مشاہدے میں نہیں آتے، اس لیے تجربیت پسند انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ اس سوچ نے ماضی میں خدا کے وجود کو بے دلیل اور ناقابل قبول قرار دینے کی راہ ہموار کی۔
سائنس اور ایمان بالغیب
بیسویں صدی میں سائنس نے یہ تسلیم کیا کہ بہت سے حقائق ایسے ہیں جنہیں براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا، لیکن ان کے اثرات کی بنیاد پر ان کی موجودگی تسلیم کی جاتی ہے۔
مثال: الیکٹران کے اثرات کو میگنیٹک فیلڈ اور بجلی میں دیکھا جاتا ہے، حالانکہ الیکٹران کو کبھی براہ راست نہیں دیکھا گیا۔
خدا پر استدلال: سائنسی اصولوں کی روشنی میں
کائنات کی ترتیب اور ربط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے۔ جس طرح سائنس میں بالواسطہ اثرات کو بنیاد بنا کر نظریات تسلیم کیے جاتے ہیں، اسی طرح خدا کے وجود پر استدلال بھی سائنسی منطق کے مطابق ہے۔
جدید سائنس اور خدا کے وجود کا سوال
براہ راست اور بالواسطہ استدلال
سائنس میں مشاہدے کی دو اقسام ہیں:
- براہ راست استدلال (Primary Rationalism): کسی چیز کا مشاہدہ یا تجربہ کرکے اس پر یقین کرنا۔
- بالواسطہ استدلال (Secondary Rationalism): اثرات کو دیکھ کر کسی چیز کے وجود پر یقین کرنا۔
جدید سائنس میں بہت سی چیزوں کو بالواسطہ استدلال سے تسلیم کیا گیا ہے، مثلاً:
- الیکٹران: صرف اس کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔
- بگ بینگ: اس کا براہ راست مشاہدہ ممکن نہیں، لیکن اس کے اثرات کو دیکھا گیا ہے۔
- کوارکس اور متوازی کائنات: یہ محض نظریات ہیں، لیکن سائنسی دلائل کی بنیاد پر انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔
خدا کا وجود: بالواسطہ استدلال
خدا پر ایمان بھی اسی طرح کے بالواسطہ استدلال پر مبنی ہے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر بار بار ہوا ہے:
"إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ…”
"بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، اور رات اور دن کے بدلنے میں…”
(البقرہ: 164)
یہ تمام مشاہدات عقل والوں کے لیے خدا کے وجود کی نشانیاں ہیں۔ کائنات کی ترتیب، انسان کی تخلیق، اور مظاہر فطرت سب خدا کی قدرت کے واضح دلائل ہیں۔
کائنات کی ترتیب: ایک عقلی دلیل
Fine Tuning اور قرآن
کائنات کی ترتیب اور ربط کو سائنسدان Fine Tuning کہتے ہیں۔ مشہور سائنسدان پال ڈیوس (Paul Davies) نے کہا:
"The cliché that ‘life is balanced on a knife-edge’ is a staggering understatement…”
یہ کائنات کسی حادثے کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ قرآن بھی اس ترتیب کو خدا کی نشانی قرار دیتا ہے:
"وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ…”
"اور تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا جو مسلسل (اپنے مقررہ راستے پر) چل رہے ہیں…”
(ابراہیم: 33)
کائنات کا آغاز اور انجام
قرآن کائنات کے آغاز اور انجام کو واضح کرتا ہے:
"اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ”
"قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔”
(القمر: 1)
جدید سائنس بھی بگ بینگ کے نظریے اور کائنات کے اختتام کو تسلیم کرتی ہے، جو قرآن کے دعووں کی تصدیق کرتا ہے۔
مخالفین کا اعتراض اور اس کا جواب
جو لوگ خدا کے وجود پر اعتراض کرتے ہیں، وہ سائنس کے اصولوں کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔ اگر وہ خدا کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں پہلے سائنسی نظریات جیسے الیکٹران، بگ بینگ، اور ارتقاء کو براہ راست دکھانا ہوگا۔ اگر وہ ان نظریات کو بالواسطہ استدلال پر تسلیم کرتے ہیں، تو خدا کے وجود پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
نتیجہ: خدا اور سائنس کے ہم آہنگ دلائل
جدید سائنس کے اصولوں کے مطابق خدا کے وجود کا نظریہ غیر سائنسی نہیں ہے۔ یہ کائنات، اس کی ترتیب، اور مظاہر فطرت سب خدا کی قدرت کے گواہ ہیں۔ خدا پر ایمان رکھنا عین سائنسی منطق کے مطابق ہے، کیونکہ یہ کائنات اور زندگی بے مقصد نہیں ہو سکتے۔