خلاصہ
- موٹروے پر ڈرائیورز کا قوانین کی پابندی کرنا اخلاقی تربیت کا نہیں بلکہ نگرانی اور سزا کے خوف کا نتیجہ ہے۔
- جدید ذہنیت کے لیے مذہب کی بنیاد پر جبر کو غیر عقلی جبکہ جدید طرز زندگی کی بنیاد پر جبر کو عقلی سمجھا جاتا ہے۔
- جدید ذہنیت کا ریفرنس پوائنٹ خواہشات ہیں، اور وہی چیز ان کے نزدیک عقلی ہے جو ان کی خواہشات سے مطابقت رکھتی ہے۔
- مسئلہ عقل یا غیر عقل کا نہیں، بلکہ اس بات کا ہے کہ عقل کو کس پیمانے سے جانچا جا رہا ہے۔
اخلاقی رویے اور نگرانی کا جبر
ہمارے معاشرے میں اخلاقی رویے اور قوانین کے درمیان تعلق کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے، اور یہی غلط فہمی مختلف قسم کے تضادات کو جنم دیتی ہے۔ موٹروے پر ڈرائیورز کا قوانین کی پابندی کرنا اور عام شاہراہوں پر ان قوانین کا احترام نہ کرنا اس بات کی مثال ہے کہ جب ایک موثر نگرانی کا نظام موجود ہوتا ہے، تو لوگ قوانین پر سختی سے عمل کرتے ہیں، چاہے وہ قوانین ان کے لیے اخلاقی ہوں یا نہ ہوں۔
موٹروے پر ڈرائیورز سپیڈ لمٹ کا احترام اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہاں نگرانی کی جاتی ہے اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جب وہ عام سڑکوں پر ہوتے ہیں، جہاں نگرانی کم ہوتی ہے، تو وہ قوانین کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رویہ "اخلاقی” ہے یا نہیں؟ دراصل، یہ رویہ اخلاقی نہیں بلکہ جبر کا نتیجہ ہے، کیونکہ نگرانی اور سزا کے خوف سے لوگ محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
قانون کا جبر اور اخلاقی تربیت
یہی معاملہ اسلام آباد میں بیلٹ باندھنے کے قانون کا ہے۔ جب آپ کو جرمانہ ہوتا ہے تو آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ بیلٹ باندھنا ضروری ہے، اور آہستہ آہستہ یہ عمل آپ کی عادت بن جاتی ہے، یہاں تک کہ آپ اس کو "اخلاقی” رویہ سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن اس رویے کی بنیاد اخلاقی تربیت نہیں بلکہ قانون کا جبر اور اس کے نتائج ہیں۔
جدید ذہنیت کا تضاد
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا کے حکم کے مطابق کوئی قانون بنایا جائے، جیسے جسم کو ڈھانپنے کا قانون، تو اس پر اعتراضات کیوں اٹھتے ہیں؟ اور کیوں اس وقت کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "اخلاقی تربیت سے اصلاح ہونی چاہیے، جبر سے نہیں؟” دراصل، اس تضاد کی وجہ جدید ذہنیت کا وہ المیہ ہے جو مذہب اور جدید نظامِ زندگی کو مختلف پیمانوں سے جانچتا ہے۔
جدید قوانین اور مذہبی جبر کا فرق
جدید ذہن کے لیے وہ قوانین اور جبر جو جدید طرز زندگی (جو کہ دراصل سرمایہ داری نظام کی تنظیم پر مبنی ہے) کی بنیاد پر ہیں، وہ "عقلی” اور "مناسب” لگتے ہیں۔ لیکن جب وہی جبر خدا کی طرف سے ہونے کا ذکر ہو، تو یہ ان کے نزدیک غیر عقلی معلوم ہوتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جدید ذہنیت کا ریفرنس پوائنٹ عقل نہیں بلکہ خواہشات ہیں۔ یعنی جو چیز ان کی خواہشات سے مطابقت رکھتی ہے، وہ ان کے نزدیک عقلی ہوتی ہے، اور جو چیز ان کی خواہشات کے خلاف ہو، وہ غیر عقلی یا جبر معلوم ہوتی ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ جب بات "جدید قوانین” کی ہوتی ہے، تو لوگ اسے بغیر کسی سوال کے قبول کر لیتے ہیں، لیکن جب مذہب کی بات ہو، تو وہ اسے جبر سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ اصل میں عقل کا مسئلہ نہیں بلکہ خواہشات کا مسئلہ ہے، جسے جدید ذہن نے عقل کا نام دے رکھا ہے۔