جدید انسان کے فکری مغالطے اور الحاد کی ناکامی

جدید انسان کی فکری بنیادیں

جدید انسان وہی سمجھا جاتا ہے جو صرف حسی، تجربی، اور سائنسی ذرائع کو علم کا واحد معیار تسلیم کرتا ہے۔ وہ غیر حسی اور مابعد الطبیعیاتی علم کو جہالت قرار دیتا ہے کیونکہ اسے سائنسی آلات سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی علم، وحی اور الہامی تصورات کو جدیدیت میں گمراہی سمجھا جاتا ہے۔

جدیدیت اور تاریخی انکار

جدیدیت کا ماننا ہے کہ سترہویں صدی سے پہلے کا دور ’’تاریک دور‘‘ (Dark Ages) تھا، اور اس سے پہلے کے انسان کو انسان ماننے سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ نظریہ اپنے ہی تضادات کا شکار ہے کیونکہ جدیدیت ماضی کو رد کرنے کے باوجود یونانی فلسفہ جیسے "ارسطو کے نظریۂ ابدیتِ دنیا” کو قبول کرتی ہے، کیونکہ یہ اس کی فکری سمت سے ہم آہنگ ہے۔

خودمختاری اور مذہب سے بغاوت

جدید انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی مذہبی یا روایتی علم کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ خیر و شر کے اصول خود گھڑتا ہے۔ نشاۃ ثانیہ، روشن خیالی، اور جدیدیت اسی خودانحصاری اور آزادی کا نام ہیں۔ اس فکر کے تحت، انسان نے مذہب کو ترک کرکے خود اپنی عقل کو رہنما بنایا۔

جدیدیت کا فکری انہدام

جدیدیت کے اس دعوے کو کہ عقل آفاقی ہوتی ہے اور اسی سے عالمی اخلاقیات و اقدار تشکیل دی جا سکتی ہیں، پسِ جدیدیت (Postmodernism) نے مسترد کر دیا۔ پوسٹ ماڈرن مفکرین نے بتایا کہ عقل کسی مخصوص تہذیب اور ثقافت کی محدودات میں مقید ہوتی ہے۔ پہلے جدیدیت نے کہا کہ انسانی عقل ہر چیز کا احاطہ کر سکتی ہے، لیکن پوسٹ ماڈرن ازم نے ماورائی سوالات کو لایعنی قرار دے کر ان پر سوچنے کی ضرورت ہی ختم کر دی۔

الحاد کا منطقی انجام

الحادی فلسفہ زندگی کے سب سے اہم سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہا۔ یہ فلاسفہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ:

  • انسان کو اس دنیا میں کون لایا؟
  • اسے یہاں سے کون اٹھا لیتا ہے؟
  • مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوگا؟

ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے، وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ سوالات بے معنی ہیں‘‘، کیونکہ انسان کی ابتدا اور انجام سے متعلق سوالات اس کے "وجود” (Being) سے متعلق نہیں۔

شکست کا اعتراف یا مزید سرکشی؟

ڈاکٹر زاہد مغل لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے ملحد فلاسفہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ حقیقت، سچ، عدل، حسن اور معنی کو مذہب کے بجائے انسانی عقل کی بنیاد پر پرکھیں گے۔ لیکن دو سو سال کی فکری کاوش کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ عقل ان سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہے۔ اصولی طور پر اس مقام پر انسان کو اپنی علمی کمزوری کا اعتراف کرکے اللہ کے حضور جھک جانا چاہیے تھا، لیکن جدید انسان نے اس شکست کو بھی سرکشی کا ذریعہ بنا لیا۔

آج کا انسان حقیقت، عدل، اور سچائی کو اضافی اور بے معنی تصورات سمجھتا ہے اور زندگی کو محض ایک کھیل تماشا قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ خود "زندگی کو بے معنی کہنا” بھی ایک عقیدہ ہی ہے۔ حقیقت کو رد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت ختم ہو جائے گی۔

انجام کی یاد دہانی

موت ہر انسان کا مقدر ہے، اور وہ وقت قریب ہے جب انسان کو اپنے دعووں کا جواب دینا ہوگا۔ مگر کیا وہ اس دن اپنی فکری گمراہی کا دفاع کر سکے گا؟ خوش قسمتی سے، توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، اور اللہ کی رحمت ہمیشہ موجود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے