جدید الحاد کی حقیقت اور عقل پسندی کا دعوی
تحریر: ڈاکٹر زاہد مغل اور مزمل بسمل

الحاد: ایک قدیم نفسیاتی مسئلہ

الحاد دراصل کوئی "نیا” یا "جدید” فکری رجحان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قدیم نفسیاتی مسئلہ ہے جو صدیوں سے بعض لوگوں کو لاحق ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی ایسے افراد موجود تھے جو کائنات کی تبدیلیوں اور واقعات کا ذمہ دار محض زمانے کو ٹھہراتے تھے اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے امکان کو مکمل طور پر رد کرتے تھے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کے خیالات پر تبصرہ موجود ہے۔

الحاد: فیشن یا عقل کا دھوکہ؟

آج کے دور میں الحاد، مذہب کی مخالفت کے نام پر ایک "فیشن” کے طور پر ابھرا ہے، جہاں بظاہر جدیدیت اور روشن خیالی کا لبادہ اوڑھ کر لوگ خود کو اپ ٹو ڈیٹ ظاہر کرتے ہیں۔ جدید ملحدین کی اکثریت اندھی تقلید کی پیروی کرتی ہے، مگر انہیں یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ وہ اپنے نظریات کو عقل و دانش کی بنیاد پر استوار کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 95 فیصد ملحدین محض فیشن کے طور پر الحاد کو اپنائے ہوئے ہیں، جبکہ انہیں اپنی ہی فکر کے بنیادی اصول اور حدود کا علم نہیں ہوتا۔

علمی اعتراضات کے جواب سے گریز

اگر جدید ملحدین سے ان کے نظریات پر علمی بنیادوں پر سوالات کیے جائیں، تو 95 فیصد ملحدین سوال کا مطلب تک نہیں سمجھ پاتے، جواب دینا تو دور کی بات ہے۔ ان کی عمومی حکمت عملی بس ایک ہی ہے: "مذہب کو برا بھلا کہنا” تاکہ لوگ اصل مدعے کو بھول جائیں۔ آپ کسی بھی الحادی سوشل میڈیا پیج یا گروپ میں علمی اعتراض اٹھا کر دیکھیں، آپ کو فوراً اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف مذہب پر تنقید کو ہی اپنے بچاؤ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

علمی مسائل پر الجھاؤ اور سطحی بحثیں

الحادی فکر کے بڑے رہنما بھی جب بعض پیچیدہ سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں، جیسے اخلاقیات یا وجود کی معنویت، سائنس کی حدود، انسانی حقوق، یا جمہوریت کی آفاقیت وغیرہ، تو وہ ان سوالات سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے مقامی ملحدین ایسے مسائل پر انتہائی سطحی اور مضحکہ خیز بحثیں کرتے ہیں، حالانکہ انہیں متعلقہ موضوعات کی گہرائی کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔

اندھی تقلید: الحادی فکر کی اصل حقیقت

بعض الحادی حلقوں میں جو عقائد اور نظریات پھیلائے جاتے ہیں، وہ خود تحقیق سے زیادہ اندھی تقلید پر مبنی ہوتے ہیں۔ اگر یہی عمل کوئی مذہبی شخص کرے تو اسے "اندھا پیروکار” قرار دیا جاتا ہے، مگر جب ایک ملحد ایسا کرے تو اسے "عقل مند”، "محقق” اور "سائنسدان” سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ آزادانہ سوچ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو "فری تھنکر” قرار دے کر محض خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔

سائنس کا استعمال: سہارا یا تضاد؟

میں نے ایسے کئی ملحدین دیکھے ہیں جو اپنے موقف کے حق میں سائنس کا حوالہ دینے میں نہیں تھکتے، مگر جب بحث اکیڈمک سطح پر آتی ہے اور وہ سائنسی شواہد سامنے آتے ہیں جو مذہبی نظریات کی تائید کرتے ہیں، تو یہ لوگ فوراً اپنے دعووں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

الحاد: حقیقت میں ایک بھونڈا سلسلہ

درحقیقت، الحاد ایک ایسا فکری انتشار ہے جس کی نہ کوئی زبان ہے، نہ کوئی ادب۔ یہ بس مختلف اصطلاحات اور سوالات کے جواب میں "نہیں، نہیں” کی رٹ لگانے کا ایک بھونڈا سلسلہ ہے۔ ان لوگوں کی پوری فکری بنیاد اسی نکتہ پر استوار ہے کہ جس چیز کو وہ سمجھ نہیں پاتے، اسے سرے سے رد کر دیتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔