جب حاجی حج كے كاموں سے فارغ ہوگا تو طوافِ وداع كرے گا ، البته حائضه كے ليے اس كي رخصت دي گئي ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ ہر جہت سے واپس پھر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينفرن أحد حتى يكون آخر عهده بالبيت
”ہرگز کوئی نہ نکلے حتی کہ اس کا آخری وقت بیت اللہ کے طواف میں صرف ہو۔“
[مسلم: 1327 ، كتاب الحج: باب وجوب طواف الوداع وسقوطه عن الحائض ، ابو داود: 2002 ، ابن ماجة: 3070 ، دارمي: 72/2 ، مسند شافعي: 363/1 ، حميدي: 502 ، شرح معاني الآثار: 223/2 أبو يعلى 291/4 ، أحمد: 222/1 ، طبراني كبير: 43/11 ، بيهقى: 161/5 ، شرح السنة: 138/4]
(جمہور ، ابن قدامهؒ) طوافِ وداع واجب ہے۔
(مالکؒ ، داودؒ ) یہ طواف سنت ہے ۔
[المغني: 337/5 ، نيل الأوطار: 447/3]
(راجح) حدیث میں موجود اس طواف کا حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ سب سے آخر میں تمہارا عمل بیت اللہ کا طواف هو:
إلا أنه خفف عن الحائض
”مگر ایام ماہواری والی عورت کے لیے تخفیف کی گئی ہے۔“
[بخاري: 1755 ، كتاب الحج: باب طواف الوداع ، مسلم: 1328 ، دارمي: 72/2 ، مسند شافعي: 364/1]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے کہ جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا طوافِ افاضہ کے بعد حائضہ ہو گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:
فاخر جي
”تو تم (بغیر طواف وداع کے ہی ) نکلو۔“
[بخاري: 338 ، كتاب الحيض: باب المرأة تحيض بعد الإفاضة ، مسلم: 1329 ، نسائي: 394/1 ، ابو داود: 2003 ، أحمد: 177/6 ، بيهقي: 163/5]
مدینہ کو واپسی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طوافِ وداع میں رمل نہیں کیا اور نماز فجر میں سورہ طور کی قراءت کی پھر مدینہ کی طرف کوچ فرمایا جب ذوالحلیفہ پہنچے تو رات وہیں قیام کیا پھر جب مدینہ دکھائی پڑا تو تین تکبیریں کہیں اور کہا:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لـهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئَ قَدِيرٌ ، آئِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ، صَدَقَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ
پھر دن کو مدینہ میں داخل ہو گئے ۔
[بخارى مع الفتح: 188/1 ، مسلم بشرح النووى: 112/9 ، ابو داود: 2770 ، ترمذى مع التحفة: 21/4 ، الروضة الندية: 643/1]